Maktaba Wahhabi

163 - 432
بحث ثالث: موضوع احادیث کو پہچاننے کی علامات تمہید حدیث کے درایتی معیار کے ضمن میں علامہ تقی امینی رحمہ اللہ اور ان کے ہم نوا حضرات کو دراصل محدثین کرام رحمہم اللہ کے فن میں موجود مباحث میں عدم نکھار کے وجہ سے یہ مغالطہ لگا ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کسی حدیث کو متن میں پائے جانے والی کمزوری کی وجہ سے رد کردیتے ہیں ، حالانکہ امر واقعہ اس کے بالکل برخلاف ہے۔ تفصیل اس امر کی یہ ہے کہ درایتی معیار کے حاملین موضوع یا ضعیف حدیث کی تعریف اور اس کے پہجاننے کی علامات میں فرق نہیں سمجھ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ تقی امینی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’حدیث کے درایتی معیار‘ میں ملا علی قاری رحمہ اللہ (م ۱۰۱۴ھ)کی الأسرار المرفوعۃ یا اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ھ) کی فتح المغیث یااِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م۷۵۱ھ) کی المنار المنیف کے حوالے سے جو درایتی اصول بیان کئے ہیں وہ سارے معرفت وضع الحدیث کے کلیات وقواعد ہیں جنہیں محدثین رحمہم اللہ قرائن کے قبیل سے بیان کرتے ہیں ، ناکہ اس طور پر کہ کونسی حدیث کب موضوع ہوتی ہے یا کب ضعیف ہوتی ہے ۔ محدثین کرام رحمہم اللہ اس پر متفق ہیں کہ موضوع یا ضعیف حدیث وہی ہوتی ہے جس میں کوئی واضع یا مجروح راوی پایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اصول حدیث کی تمام عربی کتب میں رکاکت الفاظ، مخالف قرآن روایت، عقل عام یا صریح عقل کے مخالف روایت، متعین تاریخی حقائق کے خلاف روایت، حس کے مخالف حدیث وغیرہ جیسے اصولوں کو کیف یُعرَف الحدیث الموضوع کا عنوان قائم کرکے بیان کیاگیا ہے اوریہ تمام محدثین رحمہم اللہ جب موضوع یا ضعیف حدیث کی تعریف کرتے ہیں تو تعریف الموضوع کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں : إذا کان سبب الطعن فی الراوی ہوالکذب علی رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فحدیثہ یسمی الموضوع ۱۲۱؎ اسی طرح تمام ائمہ حدیث ضعیف حدیث کی تعریف میں واضح کرتے ہیں کہ جو روایت درجہ حسن کو نہ پہنچ سکے وہ روایت ضعیف کہلاتی ہے۔ ٭ اِمام بیقونی رحمہ اللہ (م ۱۰۸۰ھ) اپنے مشہور منظومہ اصول حدیث میں فرماتے ہیں : کل ما عن رتبۃ الحسن قصر فہو الضعیف وہو اقسام کثر ٭ اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ھ) خبر صحیح اور خبر ضعیف کی تعریف کے ضمن میں فرماتے ہیں : ’’ خبر صحیح وہ ہوتی ہے جس کی سند متصل ہو اور اس کے راوی عادل و ضابط ہوں ۔ ضبط قوی ہو توروایت کو صحیح اور ضبط خفیف ہو تو روایت کو حسن کہتے ہیں ۔ چنانچہ اگر روایت میں روای عادل نہ ہو یا راوی کا ضبط ضعیف ہو تو وہ روایت محدثین رحمہم اللہ کے ہاں ضعیف کہلائے گی۔‘‘۱۲۲؎ صورت حال یہ ہے کہ جب محدثین کرام رحمہم اللہ نے ضعیف یا موضوع احادیث کا عام طور پر جائزہ لیا تو انہوں نے اس قسم کی احادیث میں چند ایسی عمومی علامات پائیں کہ جو حدیث بھی اپنے رواۃ کی نسبت سے ضعیف یا موضوع ثابت ہوئی ان میں یہ علامات پائی ہی گئیں ۔ اسی سے محدثین رحمہم اللہ نے موضوعات سے متعلقہ اپنی کتب میں یہ اسلوب اختیار فرمایا کہ موضوع حدیث کی تعریف ذکر کرنے کے بعد مستقلاً اس موضوع کو بھی زیر بحث لاتے ہیں کہ وہ علامات کونسی ہیں جو موضوع یا ضعیف حدیث میں عام طور پر پائی جاتی ہیں ۔ ٭ صحیح حدیثوں کے بارے میں اِمام حاکم رحمہ اللہ (م ۴۰۵ھ)نے اپنی کتاب معرفۃ علوم الحدیث میں ربیع بن خثیم رحمہ اللہ
Flag Counter