Maktaba Wahhabi

162 - 432
کہ یہ حدیث لغوی طورپر ضعیف ہے ناکہ اصطلاحی طور پر، کیونکہ اس قسم کی روایت کا ضعف عدم صحت کی وجہ سے نہیں ، بلکہ صحیح روایات کے تعارض کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ٭ اسی وجہ سے اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ھ) فرماتے ہیں : ’’ ایسی روایت کو ضعیف کہنے کے بجائے زیادہ بہتر یہ ہے کہ أَصَحّ کے بالمقابل صحیح کے لفظ سے بیان کیا جائے، کیونکہ اس قسم کی روایت کا ضعف تعارض کی وجہ سے ہے اور تعارض صحت کے منافی نہیں ۔ چنانچہ یہ روایت صرف تعارض کے اعتبار سے ضعیف ہے، حقیقت کے اعتبار سے نہیں ۔‘‘۱۱۷؎ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ) اس قسم کے ضعف کی تشریح میں ایک اور انداز اختیار فرماتے ہوئے اس قسم کی روایت کو ضعیف اصطلاحی ہی کہتے ہیں ، لیکن ان کی رائے میں ضعیف اصطلاحی کے لیے ضروری نہیں کہ وہ ضعیف حقیقی بھی ہو۔ چنانچہ ایسی روایت حقیقت میں ضعیف نہیں ہوتی، البتہ محدثین کرام رحمہم اللہ اپنے استعمالات اور اپنی اصطلاحات میں اسے بھی ضعیف کہہ دیتے ہیں ۔۱۱۸؎ نتیجہ یہ ہے کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس قسم کی ضعیف روایات پائی جاتی ہیں ، پہلی قسم کی نہیں ، بلکہ بہتر ہے اسے’ضعیف‘ کے لفظ سے بیان ہی نہ کیا جائے، جیسا کہ پیچھے واضح ہوا ، اسے متوقف علیہ، مرجوح، شاذ، یامعلول روایت وغیرہ کا نام دینا چاہیے۔ خلاصہ بحث:تحقیق ِحدیث میں نقد سند اور نقدمتن دو مستقل معیار نہیں ہیں ! درج بالا مکمل کلام سے بخوبی واضح ہو چکا ہے کہ خبر مقبول کی آخری دو شرائط پہلی تین میں ہی داخل ہیں اور وہ دونوں اساسی شرائط نہیں ۔ پہلی تین شرائط میں شامل ہونے کے باوجود انہیں دوبارہ ذکر کرنے سے مقصود محض متن سے متعلقہ مذکورہ لوازمات کو اور بہتر انداز میں توجہ دے کر پورا کرنا ہے۔ نیز پہلی تین اساسی شرائط کے فقدان سے تو روایت ضعیف حقیقی بن جاتی ہے ، جبکہ آخری دو شرائط کے فقدان سے روایت حقیقی طور پر تو صحیح رہتی ہے، البتہ علما اپنے استعمالات میں اسے بھی’ضعیف‘کا نام دے دیتے ہیں ، البتہ یہاں محدثین رحمہم اللہ کا ’ضعیف‘کی اصطلاح کا اطلاق کرنا ضعف ِلغوی کے قبیل سے ہوتا ہے۔ درایتی نقد کے دعویداروں کا یہ دعوی قطعا غلط ہے کہ ہر حدیث کو صحیح قرار دینے کے لیے سند ومتن سے متعلقہ ہر دو معیارات سے مستقل ثابت کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ اہل درایت کا یہ دعوی کہ: ’’ درایت کی روشنی میں روایات کو پرکھنا ایک مسلمہ علمی اصول ہے اور جب کسی روایت کے بارے میں یہ ثابت ہوجائے کہ وہ قرآن کریم کی کسی نص، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت معلومہ اور دین کے مسلمات یا عقل عام کے تقاضوں کے خلاف ہے تو اس کو یکسر رد کردینا چاہیے، چاہے اس کی اِسناد کتنی ہی صحیح اور اس کے طرق کتنے ہی کثیر کیوں نہ ہوں ۔‘‘ ۱۱۹؎ محدثین کرام رحمہم اللہ کے بیانات کے صریح منافی ہے اور متقدمین میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ۔دور جدید کے نامور مفکرین کو بھی لاشعوری طور پر اس بات کو تسلیم کرنے سے مجال انکار نہیں کہ داخلی نقد (تحقیق متن) کی شرائط آخر کار خارجی نقد(تحقیق سند) کی طرف ہی راجع ہوتی ہیں ، چنانچہ علامہ تقی رحمہ اللہ امینی صراحت کے ساتھ سرخی قائم کرکے لکھتے ہیں : ’’( درایت حدیث کے) بعض اصول داخلی وخارجی دونوں نقدوں میں مشترک ہیں ، مثلا حدیث کی پہلی تقسیم صحیح، حسن اور ضعیف کی طرف جاتی ہے اور حدیث صحیح کی درج ذیل شرائط داخلی نقد سے متعلق ہیں:’’ ولا یکون شاذا ولا معلَّلا‘‘۱۲۰؎
Flag Counter