Maktaba Wahhabi

161 - 432
سنت کے شاہدین کا مقام رکھتے ہیں ۔ تمام محدثین رحمہم اللہ بھی خبر متواتر میں ’خبر کا ذریعہ حس ہو‘ کی شرط اسی لیے لگاتے ہیں کہ جو خبر حس سے نقل نہ ہو، وہ خبر کہلائی جاسکتی ہے اور نہ اس کی بنیاد پر شہادت کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ پس جس خبر کی بنیاد حواس خمسہ بنیں اس خبر کے مخبرین کو تحقیق ِخبر میں وہی مقام دیا جائے گا جو واقعہ اور تحقیق واقعہ میں دنیا کے معروف عدالتی سسٹم میں شاہدین واقعہ کو دیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ فن حدیث کی تمام بڑی اور چھوٹی کتب میں وضاحت موجود ہے کہ سند کو سند کہتے ہی اس لیے ہیں کہ کسی چیز کی خبر اور پھر اس خبر کی تحقیق کے سلسلہ میں اصل اعتماد اسی پر ہوتا ہے، جیساکہ محدثین کرام رحمہم اللہ اس کے اصطلاحی معنی کی مناسبت اس کے لغوی معنی کے ساتھ یونہی پیش فرماتے ہیں ۔ ۱۱۴؎ المختصر صحیح مسلم اور صحیح بخاری میں آنے والی تمام روایات محدثین رحمہم اللہ کے بیان کردہ اِسنادی معیار پرپورا اترتی ہیں ۔ مختلف الحدیث یا صحیح متعارض روایات تحقیق حدیث کے بجائے تاویل حدیث کا موضوع ہیں ۔چنانچہ ایسا تعارض چونکہ آئمہ کے فہم وفراست سے تعلق رکھتا ہے، اسی لیے یہ حدیث کی صحت کے کبھی بھی منافی نہیں ہوسکتا،بلکہ اسکی نسبت خود آئمہ کرام کے ناقص فہم کی طرف کی جانی چاہیے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ) فتح الباری میں بعض اہل علم کی طرف سے صحیح بخاری کی ایک حدیث کے مفہوم کے حوالے سے اٹھاگئے بعض اشکالات نقل فرماکر ناراضگی سے فرماتے ہیں : ’’یہ حدیث بے شمار اسانید سے مروی ہے اور صحیحین، نیز صحیح احادیث جمع کرنے والے دوسرے آئمہ نے بھی اس حدیث کی صحت پر اتفاق نقل کیا ہے، لیکن اس کے باوجود اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث کی صحت کو سند کے قطعی الثبوت ہونے سے قطع نظر ہدف ِتنقید بنایا ہے۔ جو لوگ اس قسم کی تنقید صحیحین یا ثابت شدہ روایات پر کرتے ہیں ، توایسی تنقید ان اہل علم کی فن حدیث میں عدم مہارت اور اس روایت کی کثرت ِاسانید سے ان کی اپنی ناواقفیت کی دلیل ہے۔‘‘۱۱۵؎ ماہرین فن حدیث کے ہاں ضعیف کا اطلاق کس روایت پر کیا جاتا ہے؟ اوپر کی بحث واضح ہوچکا ہے کہ’ ضعیف حدیث‘ عام طور پر وہ ہوتی ہے جس میں صحت حدیث اساسی اور ضمنی شرائط پائی جائیں ۔ اس پس منظر میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے استعمالات واصطلاحات میں ’ضعیف حدیث‘کی تعریفیں دو طرح سے منقول ہیں : 1۔ جو روایت اپنی پہلی تین شرائط کے اعتبار سے مردودہو، اسے ضعیف کہا جائے گا اور جو اپنی سند کے اعتبار سے صحیح ہو اسے صحیح کہا جائے گا۔ ذخیرہ حدیث کی عام روایات اسی قسم کی ہیں ۔ ٭ ڈاکٹر صبحی صالح حفظہ اللہ فرماتے ہیں : فالغالب علی السند الصحیح أن ینتہی بالمتن الصحیح والغالب علی المتن المعقول المنطقی الذی لا یخالف الحس أن یرد عن طریق سند صحیح۱۱۶؎ ’’اکثر سند صحیح متن صحیح پر منتہی ہوتی ہے اور اکثر متن صحیح معقول جو حس کے مخالف نہ ہو، سند صحیح کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔‘‘ 2۔ بسا اوقات روایت کی پہلی تین اساسی شرائط کے اعتبار سے وہ صحیح ہوتی ہے ، لیکن ماہرین فن اسے پھر بھی ضعیف کے نام سے ذکر کردیتے ہیں ۔ ماہرین فن سے حدیث پر حکم لگاتے ہوئے اس قسم کے اقوال عام طور پر معلول یا شاذ احادیث کے ضمن میں مل جاتے ہیں ، جس کی بعض مثالیں چھٹے باب کی تیسری فصل میں مذکور ہوں گی۔ ان شاء اللہ جانناچاہئے کہ بسا اوقات محدثین کرام رحمہم اللہ مذکورہ دوسری صورت پر جو ’ضعیف‘ کا اطلاق کرتے ہیں تو اس کی نوعیت یہ ہوتی ہے
Flag Counter