کو صحیح تر کہہ لیا جائے۔ پس عمل ’صحیح تر‘ پر کیا جائے گا، جبکہ ’صرف صحیح‘ متروک العمل ہوگی۔ واضح رہے کہ اس’ صحیح روایت‘کا غیر معمول بہ ہونا محض تعارض کی وجہ سے ہے، ناکہ روایت کی عدم صحت کی وجہ سے۔ اس تعارض سے قطعا یہ لازم نہیں آتا کہ ہم مرجوح روایت کو’ ضعیف‘ کہیں ، بلکہ اس پر عمل کرنے سے توقف کیا جائے گا۔ مرجوح اور متوقف علیہ روایت کی شکل منسوخ روایت ہی کی طرح ہے کہ وہ بھی صحیح ہونے کے باوجود غیر معمول بہ ہوتی ہے۔ المختصر جو شخص صحیحین پر غور کرے گا تو اسے وہاں اس قسم کی غیر معمول بہ صحیح روایات کی کافی امثلہ مل جائیں گی۔‘‘۱۱۲؎ اس سلسلہ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ضعیف روایت کی ’اساسات‘ کے ضمن میں بھی اگر دیکھ لیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ صحیح روایت کی ’اساسی شرائط‘ بھی تین ہیں ، کیونکہ ضعیف حدیث کے اسباب ماہرین فن کے ہاں تین ہیں: 1۔ عدالت راوی کے طعن کی وجہ سے روایت کا ضعیف ہونا۔ 2۔ ضبط راوی کے طعن کی وجہ سے روایت کا ضعیف ہونا۔ 3۔ انقطاع سندکے لحاظ سے روایت کا ضعیف ہونا۔ مزید برآں معلول اور شاذ احادیث کتب فن میں ’راوی کے ضبط میں طعن‘ کے تحت ہی ذکر کی جاتی ہیں ۔ (یعنی اگر روایت میں راوی وہم کا شکار ہو یا دیگر ثقات سے اختلاف کررہا ہو، تو ایسی روایت کو محدثین کرام رحمہم اللہ ’ معلول‘ یا ’شاذ‘ کہتے ہیں )، چنانچہ جب صحت حدیث کے لیے شرط لگا دی کہ اس میں راوی ’ضابط‘ ہونا چاہیے، تو اس میں از خود ’نفی شذوذ‘ اور’عدم علت‘ کا ذکر آگیا ۔ اس سے واضح ہوگیا کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے صحیح حدیث کی شرائط خمسہ میں سے آخری دو شرائط کو مکررا ذکر کیا ہے، تاکہ تحقیق روایت کے ضمن میں براہ راست متن سے متعلق تحقیق کا بھی جائزہ لے لیا جائے، اگرچہ یہ الگ بات ہے کہ روایت کی ترسیل کا مرکزی کردار چونکہ راوی ہوتا ہے، ا س لیے راوی کو نکال کر تحقیق روایت کا ہر دعوی باطل ہے۔ الغرض تحقیق روایت کے تمام تر اَسالیب میں بہرحال تحقیق کا آخری مدار راوی یا سند ہی ہوگی۔ اسی وجہ سے اِمام شافعی رحمہ اللہ (م۲۰۴ھ)نے بھی اپنے معروف زمانہ کتاب الرسالۃمیں تحقیق حدیث کے ضمن میں رواۃ حدیث کو شاہدین واقعہ کی مثل قرار دیا ہے اور ان کے ہاں ’سند‘ کی اہمیت اسی طرح ہے جس طرح عدالت میں کسی حق کے اثبات یا کسی کو مجرم قرار دینے کے لیے واحد ذریعہ گواہان ہوتے ہیں ، جبکہ قرائن کو گواہان کے ساتھ معاون کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے، ناکہ فیصلہ کی اصل بنیاد کے طور پر۔۱۱۳؎ دنیا میں کسی شے کے علم کے حوالے سے ہمارے پاس صرف حواس یا عقل موجود ہیں ۔ حواس کے ذریعے سامنے موجود امور سے اور عقل کے ذریعے ان حاصل شدہ معلومات کو باہم ترتیب دے کر مختلف نتائج اخذ کرکے ہم ایک محدود علم حاصل کرسکتے ہیں ، جبکہ باقی تمام امور کے علم کے لیے ہمیں دوسرے انسانوں کی طرف رجوع کرنا پڑتاہے جو ہمیں زمانہ ماضی یا حال میں موجود واقعات کا علم بذریعہ خبر دیتے ہیں ۔ خبر کا ذریعہ حواس خمسہ ہوتے ہیں ، جن کے ذریعے ہی کسی واقعہ کا ادراک کیا جاسکتا ہے۔تحمل واقعہ میں اور پھراس واقعہ کی آگے روایت میں ان پانچ ذرائع کے علاوہ کوئی ذریعہ استعمال نہیں ہوتا اور نہ ہی ان ذرائع کے علاوہ آنے والے واقعات کا بیان خبر کہلا سکتا ہے۔ ’حس‘ سے حاصل ہونے والے علم کو اہل منطق کی اصطلاح کے مطابق ’علم مشاہدہ‘کہتے ہیں ، جوکہ شہِد سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے۔ شاہد بمعنی واقعہ کا گواہ، بھی اسی سے ہے۔ کیونکہ شاہدواقعہ حواس کے ذریعے حاصل ہونے والی شے کی شہادت وگواہی دیتا ہے اسی لیے اسے شاہد کہتے ہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے چونکہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی نسبت سے شرعی واقعات کی خبر دی ہے اس لیے وہ بھی |