Maktaba Wahhabi

159 - 432
٭ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ھ)تدریب الراوی میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)سے نقل کرتے ہیں : ’’ صحیح حدیث میں ’عدم شذوذ‘ کی شرط کا مطلب واضح نہیں اوریہ بات علماء کے مابین مشکل کی باعث بنی ہے۔ جب اِسناد متصل ہے اور روایت کے راوی عادل وضابط ہیں تو گویا کہ علل ظاہرہ کا خود انتفا ہوگیا، چنانچہ اب اس حدیث کو صحیح قرار دینے میں کوئی شے کیوں مانع ہو؟ اس روایت کا دوسری روایتوں سے اختلاف کی بنا پر قطعاً حدیث کا ضعف لازم نہیں آتا، بلکہ اس اختلاف کو صحیح اور صحیح تر کے قبیل سے سمجھنا چاہیے۔‘‘ ۱۰۵؎ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ) مزید فرماتے ہیں : ’’متقدمین آئمہ حدیث میں سے کسی ایک نے بھی عدم شذوذ( یعنی وہ واقعہ جس کے ناقلین کی باتیں باہم متعارض ہوجاتی ہیں )کی شرط کو صحیح حدیث کی شرط کے طور پر نقل نہیں کیا،بلکہ متاخرین نے اسے خبرمقبول کی شرائط میں محض علماء کی جزوی مثالوں کو سامنے رکھ کر راجح ومرجوح اور صحیح وصحیح تر کے قبیل سے اخذ کرکے ذکر کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیحین میں اس قسم کی کئی امثلہ موجود ہیں جن میں ایک ہی موضوع سے متعلقہ متعدد صحیح روایات باہم آپس میں متعارض ہیں ، اس کے باوجود اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ)اور اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ھ)نے ان روایات کو اپنی کتب میں درج کیا ہے اور آئمہ فن ان روایات کو ضعیف قرار دیے بغیر صحیحین کی ان روایات کی صحت پر بھی ماہرین فن کا اتفاق نقل کرتے ہیں ۔ البتہ ان روایات پر توقف کرتے ہوئے ان کو قابل استدلال اور معمول بہا نہیں سمجھتے۔ ‘‘ ۱۰۶؎ ٭ اس کے بعد حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)خود ہی اپنی بات کے نتیجہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’ اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی بات سے تو یہ لازم آتا ہے کہ بعض احادیث صحیحہ غیر معمول بہا بھی ہوتی ہیں ، تو ہم جواب میں کہیں گے کہ بلا ریب وشک ایسا ہی ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے میں مانع بھی کیا ہے کیونکہ ہر صحیح حدیث کے لیے ضروری بھی نہیں کہ وہ معمول بہا بھی ہو، جیسے منسوخ روایات وغیرہ۔۱۰۷؎ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)اپنے مذکورہ دعوی کے حوالے سے النکت میں اِمام ابن صلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ھ)کی خبر مقبول کی تعریف پرتبصرہ کرتے ہوئے واضح طور پر فرماتے ہیں : ’’حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ھ)کا اپنی کتاب علوم الحدیث میں خبر مقبول کی تعریف کے ضمن میں مطلقا دو شرائطیعنی ولا شاذا ولامعللا ۱۰۸؎ کو زیادہ کرنا محل اشکال ہے کیونکہ ان شرطوں کو عام طور پر متاخر محدثین کرام رحمہم اللہ نے زیادہ کیا ہے، ورنہ تمام اصولی اور فقہاء کرام رحمہم اللہ اس بات پر متفق ہیں کہ ’نفی شاذ‘ اور ’عدم علت‘ کی شرط کو حدیث کی شرطِ صحت میں داخل کرنا صحیح نہیں ہے۔‘‘ ۱۰۹؎ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ)کی طرح اِمام زین الدین عراقی رحمہ اللہ (م ۸۰۶ھ)بھی علامہ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م۷۰۲ھ) کی طرف سے تصریحا فرماتے ہیں : ’’صحیح حدیث کی تعریف میں فقہاء اور اصولیوں رحمہم اللہ کی حتمی رائے کے مطابق ’عدم شذوذ‘ اور’ نفی علل‘ کی شرائط زائد ہیں ، حدیث صحیح کی اصل شرائط صرف پہلی تین ہیں ۔‘‘ ۱۱۰؎ ٭ کبا ر آئمہ حدیث میں سے اِمام خطابی رحمہ اللہ (م ۳۸۸ھ)بھی صراحت کے ساتھ’ نفی شذوذ‘ اور’ عدم علل‘ کی شروط کو صحیح حدیث کی شرط میں داخل نہیں فرماتے۔۱۱۱؎ ٭ اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م۹۰۲ھ) زین الدین عراقی رحمہ اللہ (م۸۰۲ھ)کی نسبت سے بیان فرماتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ شاذ کوصحیح حدیث نہ سمجھنا، اہل علم کے ہاں محل نظر ہے کیونکہ شاذ کے ترک کی بنیاد رجحان اور عدم رجحان پر ہے، ضعف پر نہیں ۔ نیز مرجوحیت صحت کے منافی ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں متعارض روایتوں میں سے ایک کو صحیح اور دوسری
Flag Counter