Maktaba Wahhabi

158 - 432
پہنچتا، بلکہ اس کی نظر اپنے فنی تجربہ اور ذوق کی روشنی میں بیماری کے پیچھے موجود مخفی عیوب پر بھی ہوتی ہے۔ عین اس طرح فن محدثین رحمہم اللہ میں روایات کے ضعف کی ایک نوعیت تو وہ ہوتی ہے جس کا تعلق ظاہری امراض کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن روایت کو محدثین عظام رحمہم اللہ کے ہاں ان مخفی عیوب کی بنا پر بھی پرکھا جاتا ہے، جن کا استدراک صرف ماہرین فن اور جہابذۃ محدثین رحمہم اللہ ہی کر سکتے ہیں ۔ فن حدیث میں اس بحث کو علل الحدیث کا نام دیا گیا ہے۔ الغرض علل الحدیث کی بحث میں تحقیق روایہ کا طویل تجربہ رکھنے والے ان اکابر محدثین رحمہم اللہ کے ذوق فن کا مظاہرہ سامنے آتا ہے، جو اس علم حدیث میں اِمامت کے درجہ پر فائز ہوتے ہیں ۔ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ھ)نے عین الإصابۃ میں ، اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ھ)نے المنار المنیف میں اور’ موضوعات‘ پر مستقل قلم اٹھانے والے محدثین کرام رحمہم اللہ نے اس فنی ذوق سے متعلق کچھ متعین علامات اپنی کتب میں ذکر فرمادی ہیں ۔ لیکن واضح رہنا چاہیے کہ موجودہ تصور درایت میں ذوقِ متجددین اور اکابر محدثین رحمہم اللہ کے فنی ذوق کا اساسی فرق یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ذوق کا تعلق علم الروایہ کی اس گہری واقفیت اور عملی تجربہ سے ہے جو کہ طویل مدت کے بعد اس فن میں سر کھپانے کے بعدان کو حاصل ہوتا ہے، ناکہ یہ سائنس،فلسفہ، تاریخ، قضا وغیرہ اور تفقّہ فی الدین کا وہ ذوق ہے، جس کے حاملین آج کل کے جدید مفکرین یا قدیم فقہائے عظام رحمہم اللہ ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ’ علت‘ سے محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں سائنسی، تاریخی،مجتہدانہ یا فلسفیانہ ذوق مراد نہیں ، بلکہ فن محدثین رحمہم اللہ سے گہری آشنائی کا ذوق ہے۔ ایک تجربہ کار محدث تحقیق روایہ میں اس فنی ذوق سے بہترین فائدہ اٹھاتا ہے۔ اپنے رسوخ فی العلم اور طویل تجربہ ومعلومات کی روشنی میں ایک ماہر عالم حدیث کا کسی اجنبی شے پرٹھٹک جانا اور اس فن سے جاہل شخص کا کسی بات پر ٹھٹک جانے میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ جس طرح ڈاکٹر ایک طالبعلم کو بسا اوقات بیماری کی نوعیت سمجھا نہیں سکتا، عین اسی طرح’ علل الحدیث‘کا معاملہ ہے کہ عام محدثین رحمہم اللہ اس سے ناواقف رہتے ہیں اور بسا اوقات ماہرین فن ایک حدیث کی کمزوری کوخود توسمجھتے ہیں ، البتہ اس فن کی گہرائیوں سے ناآشناؤں کو سمجھا نہیں سکتے۔ جیساکہ ابھی چند صفحات قبل اسی حوالے سے امام ابوداؤد سجستانی رحمہ اللہ (م۲۷۵ھ) کا قول إلی أہل مکۃ کے حوالے سے گذرا۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں قبول حدیث کی اساسی شرائط مذکورہ تمام تمہیدی مباحث سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ فن محدثین رحمہم اللہ کا موضوع محض تمییز الصحیح من السقیم ہے یعنی خبر صحیح اور خبر سقیم میں امتیاز کرنا، جبکہ’معمول بہ اخبار‘ کی بحث کا بنیادی تعلق اس سے بڑھ کر مزید اس بات سے بھی ہے کہ کون سی خبر قابل استدلال طور پر قبول ہوگی اور کون سی نہیں ۔ واضح رہے کہ صحیح حدیث کی اساسی شرائط صرف تین ہیں ، جبکہ’ خبرمعمول‘ یا بہ الفاظ دیگر خبر مقبول کی پانچ شرائط ہیں ۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا موضوع ’صحت روایت ہے، ناکہ قابل استدلال اور معمول بہا روایات کا جمع کرنا۔ اسی وجہ سے اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) نے اپنی کتاب کا نام یوں تجویز فرمایا ہے: الجامع الصحیح المسند المختصر من أحادیث رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم وسننہ وأیامہ۔ جاننا چاہیے کہ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ھ) اور اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۱۶۲ھ)کی کتابوں میں موجود روایات کی صحت پر امت کا اتفاق ہوا ہے، ناکہ ان میں پائی جانے والی تمام روایات کے معمول بہا اور قابل استدلال ہونے پر۔۱۰۴؎
Flag Counter