Maktaba Wahhabi

116 - 432
٭ مرسل خفی اور تدلیس میں یہ فرق ہے کہ تدلیس کرنے والا ایسے راوی سے روایت بیان کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات اور سماع تو ثابت ہے مگر یہ روایت اس نے اس سے نہیں سنی، جبکہ ارسال کرنے والا ایسے راوی سے روایت بیان کرتا ہے جس سے اس کی ملاقات اور سماع ہی ثابت نہیں ۔۱۷۵ ؎ مر سل خفی روایت انقطاع کی وجہ سے ضعیف شمار ہوتی ہے ۔ اتصال سند نہ ہونے کی بنا پر محدثین رحمہم اللہ کی رد کردہ چند احادیث عن خلیل بن مرۃ عن معاویۃ بن قرۃ عن أبی ھریرۃ مرفوعا: ((من لم یوتر فلیس منا)) ’’یعنی فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس نے وتر نہ پڑھا وہ ہم میں سے نہیں ۔ ‘‘ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں انقطاع ہے ۔ ٭ اِمام زیلعی رحمہ اللہ (م ۷۶۲ ھ) رقمطراز ہیں : ’’یہ روایت منقطع ہے ، اسے اِمااحمد (م ۲۴۱ ھ) رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور وہ خود فرماتے ہیں کہ معاویہ بن قرۃ (م ۱۱۳ ھ) نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے نہ کچھ سنا ہے اور نہ ہی ملاقات کی ہے اور خلیل بن مرہ (م ۱۶۰ ھ) کو اِمام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (م ۲۳۳ ھ)اور اِمام نسائی رحمہ اللہ (م ۳۰۳ ھ)نے ضعیف جبکہ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) نے اسے منکر الحدیث کہا ہے ۔‘‘۱۷۶؎ عن عمر بن عبد العزیز عن عقبۃ بن عامر مرفوعا: ((رحم اللّٰہ حارس الحرس)) ’’یعنی اللہ تعالیٰ جنگ میں پہرہ دینے والے پر رحم فرمائے ۔ ‘‘ یہ روایت مرسل خفی ہونے کی وجہ سے ضعیف ہے کیونکہ عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ (م ۱۰۱ ھ) کاعقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں ۔۱۷۷؎ عن بقیۃ بن الولید عن أبی یحیی المدینی عن عمرو بن شعیب عن أبی سلمۃ عن أبی ھریرۃ مرفوعا: (( المتم للصلاۃ فی السفر کالمقصر فی الحضر)) ’’ سفر میں نماز پوری پڑھنے والا حضر میں قصر کرنے والے کی مانند ہے ۔ ‘‘ یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں بقیہ راوی مدلس ہے اور اس نے لفظ ِعن سے روایت بیان کی ہے ۔ ۱۷۸؎ بحث رابع: سند میں شذوذ وعلت شذوذ کا معنی ومفہوم لغوی مفہوم لغت میں شذوذ باب شَذّ یشُذّ بروزن نصرسے مصدر ہے اور اس کا معنی ہے: ’جماعت سے الگ ہو جانا۔ ‘ ۱۷۹؎ یہ لفظ اس معنی میں
Flag Counter