Maktaba Wahhabi

115 - 432
منقطع کا بیان لفظ منقطع انقطاع سے اسم فاعل کا صیغہ ہے اور یہ اتصال کی ضد ہے ۔ اس کی اصطلاحی تعریف کے سلسلے میں متقدمین فرماتے ہیں کہ’منقطع‘ ہر اس روایت کا نام ہے جو متصل نہ ہو، جیسا کہ اِمام ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے فرمایا ہے۔۱۶۷؎ محدثین کرام رحمہم اللہ ’منقطع‘ کو جب مذکورہ معنی میں استعمال کرتے ہیں تو لغوی اعتبار سے استعمال کرتے ہیں ، لیکن متاخرین نے چونکہ ہر ہر شے میں نکھار اور تہذیب پیدا کی ہے، چنانچہانہوں نے منقطع کو لغوی معنیتک محدود کر دیا ہے اور اس کی تعریف یوں کی ہے کہ ایسی روایت جس کی سند سے ایک یا زیادہ راوی ’پے درپے نہیں ‘بلکہ مختلف مقامات سے حذف ہوئے ہوں ، منقطع کہلاتی ہے، جیسا کہ متاخرین میں سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے یوں نقل فرمایا ہے ۔ ۱۶۸؎ ’منقطع‘ کا حکم یہ ہے کہ یہ روایت بالاتفاق ضعیف ہوتی ہے ۔ مدلس کا بیان لفظ مدلس، تدلیس سے اسم مفعول کا صیغہ ہے ، اس کا معنی ہے ’عیب چھپانا ‘۔ یہ دلس سے مشتق ہے جس کا معنی ’اندھیرا یا تاریکی کا اختلاط ‘ہے ۔۱۶۹؎ اصطلاح میں ’مدلس راوی‘ وہ ہوتا ہے جو سند کا عیب چھپا کر اس کی تحسین ظاہر کرے ۔ ۱۶۹؎ ٭ اس کی دو قسمیں ہیں: 1۔ تدلیس الاسناد 2۔ تدلیس الشیوخ 1۔ تدلیس ِاسناد: یہ ہے کہ راوی اپنے کسی ایسے ہم عصر شیخ سے روایت کرے جس سے ملاقات کر چکا ہو مگر یہ روایت اس سے نہ سنی ہو ، یا ایسے ہم عصر سے روایت کرے جس سے ملاقات نہ کی ہو مگر یہ تاثر دے کہ وہ اس سے ملاقات کے بعد روایت کر رہا ہے ۔۱۷۰؎ 2۔ تدلیس ِشیوخ: یہ ہے کہ راوی اپنے شیخ سے سن کر روایت کرے مگر بیان کرتے وقت شیخ کا ایسا نام ، کنیت ، نسبت یا وصف ذکر کرے جو غیر معروف ہو اور ایسا کرنے کا مقصد یہ ہو کہ کہیں وہ پہچان نہ لیا جائے،کیونکہ وہ ضعیف یا کم تر درجہ کا کوئی آدمی ہو ۔ ۱۷۱؎ تدلیس کا حکم یہ ہے کہ بعض اوقات یہ مکروہ ہوتی ہے، مثلاً جب کسی راوی کا استاد معمولی درجہ کا ہو اور اس کے استاد کا استاد عالی مرتبہ ہو تو وہ معمولی درجہ کے استاد کو ساقط کر کے استاد کے استاد سے روایت کرے ۔ اور بعض اوقات تدلیس حرام ہوتی، مثلاً جب راوی کا استاد غیر ثقہ ہو، تو وہ اسے ساقط کر دے اور اس کے استاد سے روایت بیان کرے تاکہ اس کے ضعیف استاد کا پتہ نہ چل سکے ۔ ۱۷۲؎ مرسل خفی کا بیان لفظ مرسل اِرسال سے اسم مفعول کا صیغہ ہے ، اس کا معنی ہے آزاد چھوڑ دینا ۱۷۳؎ اور خفی جلی کی ضد ہے ۔ یہ ایسی روایت ہوتی ہے کہ جس کا ارسال مخفی ہوتا ہے اور اس کے طالب کو کافی محنت کرنی پڑتی ہے اسی لیے اس کا نام مرسل خفی رکھا گیا ہے ۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے اس کی اصطلاحی تعریف ان الفاظ میں ذکر فرمائی ہے: المرسل الخفی إذا صدر من معاصر لم یلق من حدث عنہ بل بینہ وبینہ واسطۃ۱۷۴؎ ’’مرسل خفی وہ روایت ہے جس کا راوی اپنے ہم عصر سے روایت کرے اور اس سے اس کی ملاقات نہ ہوئی ہو بلکہ ان دونوں کے درمیان ایک اور راوی کا واسطہ موجود ہو۔ ‘‘
Flag Counter