ارسال مضر نہیں ، جیسا کہ عنقریب آرہا ہے۔ مرسل تابعی کا حکم جمہور محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک مرسل روایت ضعیف ہے ،جیسا کہ حافظ ابن صلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ) اور اِمام نووی رحمہ اللہ (م۶۷۶ھ) وغیرہ نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔۱۶۲؎ تاہم استدلال واستنباط کے پہلو سے آئمہ اربعہ سمیت جمہور فقہاء رحمہم اللہ اس سے مبنائے استدلال بناتے ہیں ۔ ایک قول تو وہ ہے، جو جمہور محدثین کرام رحمہم اللہ کا ہے یعنی مرسل روایت مطلقاً مردود ہے۔ دوسرا قول جمہور فقہاء کرام رحمہم اللہ اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) ، اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) اور اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ ھ) وغیرہ کا ہے کہ مرسل روایت استدلال کے پہلوسے مطلقاً قابل حجت ہے۔ ان کاکہنا یہ ہے کہ جب ارسال کرنے والا آدمی علمائے حدیث کے ہاں ثقہ اور قابل اعتبار ہے تو اس کے ارسال کے باوجود اس پر اعتماد کیا جاسکتا ہے کہ اسنے کسی ضعیف آدمی کو گرایا نہیں ہوگا، مزیدیہ کہ خیر القرون رحمہم اللہ (تابعین، تبع تابعین) کی عمومی تو ثیق خود نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے ارشادات سے واضح ہے، پھر یہ کہ زمانہ نبوت سے قربت کی وجہ سے اور اسلام کے بحیثیت مجموعی غالب ہونے کی وجہ سے زمانہ خیر القرون میں کوئی غلط چیز بطور دین پنپ بھی نہیں سکتی تھی، چنانچہ باوجود اس کے کہ بطور ثبوت یہ روایت ثابت نہیں ہوسکی، لیکن مذکورہ قرائن کی وجہ سے بطور استدلال اسے بہر حال قبول کیا جانا چاہیے۔ علمائے متقدمین کے یہاں ایک تیسرا قول بھی ہے جو اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ) اور ان کے اصحاب کی طرف منسوب ہے۔ان کے موقف میں کچھ مزید توازن اور تفصیل ہے اور وہ یہ کہ اگر اِرسال کرنے والے تابعی کی عادت یہ ہو کہ وہ ہمیشہ ثقہ راوی سے ہی ارسال کرے تو اس کی مرسل روایت کو قبول کیا جائے گا اور اگر وہ ہر کسی سے ارسال کرتا ہو تو اسکی مرسل روایت قبول نہیں کی جائے گی۔ محقق محدثین جیسے یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ (م ۱۹۸ ھ) اور علی بن المدینی رحمہ اللہ (م ۲۳۴ ھ)وغیرہ کا رجحان، باوجودیکہ یہ روایت بطور ثبوت کے متصل السند نہیں لیکن مذکورہ توجیہات کے پیش نظر اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ) کے موقف کی طرف ہیں ۔۱۶۳؎ مرسل صحابی کا حکم مرسل روایت دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی صحابی آپ صلی اللہ عليہ وسلم کا کوئی قول یا فعل بیان کرے جواس نے (صغر سنی وغیرہ کے باعث) براہ ِراست آپ صلی اللہ عليہ وسلم سے نہ سنا ہو بلکہ کسی دوسرے صحابی سے اسے اخذ کیا ہو، بعد ازاں وہ اس صحابی کا واسطہ چھوڑ کر براہ راست آپ صلی اللہ عليہ وسلم کا ارشاد نقل کردے تو ایسی روایت کو مرسل صحابی کہتے ہیں ۔ مرسل صحابی محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک موصول کے حکم میں ہی ہوتی ہے، کیونکہ صحابی صحابہ سے ہی روایت کرتا ہے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، اس لیے ان کی جہالت مضر نہیں ۔ ۱۶۴؎ مُعْضَل کا بیان لفظ معضل عضل سے ہے اور عضل کا معنی ہے: ’’روکنا ، سخت ہونا اور عاجز کر دینا وغیرہ‘‘۔ ۱۶۵؎ اصطلاح میں ’معضل‘ روایت وہ ہوتی ہے جسکی سند کے درمیان سے دو یا زیادہ راوی پے در پے ساقط ہو گئے ہوں ۔۱۶۶؎ مثلاً اگر اِمام مالک رحمہ اللہ (م ۱۷۹ ھ) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست کوئی حدیث نقل فرمائیں کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے یوں فرمایا ........الخ ایسی روایت بالاتفاق ضعیف ہوگی کیونکہ اسکی سند میں ایک سے زیادہ راوی پے در پے ساقط ہوں گے، جن کی ثقاہت کا کچھ علم نہیں ۔ |