(م۶۴ھ)کا یہ قول نقل کیا ہے: لہ ضوء کضوء النہار۱۲۳؎ ’’صحیح حدیثوں میں روشنی دن میں روشنی کی طرح ہوتی ہے۔‘‘ ٭ ضعیف حدیثوں کے بارے میں ربیع بن خثیم رحمہ اللہ (م ۶۴ھ)فرماتے ہیں : لہ ظلمۃ کظلمۃ اللیل۱۲۴؎ ’’ضعیف حدیثوں میں تاریکی رات کی تاریکی کی طرح ہوتی ہے۔‘‘ ٭ موضوع روایت کی پہچان کی علامات کے سلسلے میں حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (م۶۴۳ھ)کچھ علامات کا ذکر فرماتے ہوئے بیان کرتے ہیں : إنما یعرف کون الحدیث موضوعا باقرار واضعہ أو ما یتنزل منزلۃ اقرارہ،وقد یفھمون الوضع من قرینۃ حال الراوی أو المروی۱۲۵؎ ’’موضوع حدیث اس طرح پہچانی جاتی ہے کہ اس کا واضع خود اقرار کر لے یا اقرار کے قائم مقام کوئی چیز ظاہر ہو اور کبھی اہل علم راوی اور مروی (یعنی متنِ حدیث) کی حالت کے قرینے سے بھی موضوع حدیث کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں ۔ ‘‘ ٭ اس حوالے سے ملا علی قاری رحمہ اللہ (م ۱۰۱۴ھ)موضوعات کبیر میں فرماتے ہیں : والأحادیث الموضوعۃ علیہا ظلمۃ ورکاکۃ ومجاز فات باردۃ تنادی علی وضعہا واختلافہا۱۲۶؎ ’’موضوع حدیثوں میں ایک خاص قسم کی تاریکی، سطحیت اور بے تکا پن پایا جاتا ہے، جو اس کے جعلی ہونے کو پکار پکار کر کہتا ہے۔ ‘‘ لیکن یہ بات یاد رہے کہ متنِ حدیث کو دیکھ کو کسی روایت کے موضوع ہونے کا حکم لگانا ہر کس وناکس کا کام نہیں ، بلکہ یہ صرف اسی فنِ حدیث کے ماہر کا کام ہے، جو سننِ صحیحہ کی معرفت میں انتہائی پختہ ہو ، سنن وآثار اور سیرت ِرسول کی معرفت میں اسے ملکہ حاصل ہو ، اسے علم ہو کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کس چیز کا حکم دیتے ہیں اور کس سے روکتے ہیں ، کس کی ترغیب دیتے ہیں اور کس سے ڈراتے ہیں ، کسے پسند کرتے ہیں اور کسے ناپسند کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ خلاصہ یہ ہے کہ الفاظ ِحدیث کے ذریعے وضعِ حدیث کا حکم لگانا صرف اسی کا کام ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال میں تتبع کرنے اور ان میں سے صحیح کو غیر صحیح سے ممتاز کرنے کا حریص ہو ،جیسا کہ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م۷۵۱ھ) نے یہ وضاحت فرمائی ہے۔۱۲۷؎ ٭ اِمام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م ۷۰۲ھ)نے بھی اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ یہ صرف اسی کا کام ہے جو نبی کریم صلی اللہ عليہ وسلم کے الفاظ کی جستجو میں بہت زیادہ کوشاں ہو اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسروں کے الفاظ کی پہچان میں مہارت حاصل ہو ۔ ۱۲۸؎ ٭ اِمام بلقینی رحمہ اللہ (م ۸۰۵ھ)نے بھی یہی بات یوں فرماتے ہیں : ’’ نقاد ِحدیث میں ایک خاص قسم کا ملکہ پیدا ہو چکا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ موضوع حدیث کو پہچان لیتے ہیں ۔ اس کی شاہد یہ مثال ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی انسان کی کئی سال خدمت کرے تو اسے اس کی پسند اور ناپسند کا علم ہو جاتا ہے ، پھر اگر کوئی دوسرا شخص آ کر یہ دعویٰ کرے کہ اسے فلاں چیز سے نفرت ہے تو خادم اس کی بات کی طرف توجہ نہیں کرتا کیونکہ اسے علم ہوتا ہے کہ اس کا مالک اسے پسند کرتا ہے ۔ یعنی مجرد سماع سے ہی اسے اس بات کا جھوٹ پتہ چل جاتا ہے (یہی حال نقاد ِحدیث کا بھی ہے کہ انہیں مجرد سماع سے ہی حدیث کے موضوع ومن گھڑت ہونے کا علم ہو جاتا ہے) ۔‘‘ ۱۲۹؎ |