ہونے کے باوجود اس کے متن کے مردود ہونے کے چند درایتی اصول پیش کیے۔ ٭ مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)کے بعد ان کے شاگردمولانا حمید الدین فراہی رحمہ اللہ (م ۱۳۴۹ ھ) نے ’مقدمہ نظام القرآن‘ میں نظم قرآن کے خلاف مروی ہر خبر واحد کو رد کرنے کا اصول پیش کیا، چاہے وہ روایت سند کے اعتبارسے متفق علیہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ ٭ فراہی صاحب رحمہ اللہ کے شاگرد امین احسن اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ)نے تو اپنی کتاب’مبادی تدبرحدیث‘ میں سند کے صحیح ثابت ہو جانے کے باجود، احادیث کے متون کی جانچ پرکھ کے پانچ بنیادی اصول اور چھ کسوٹیاں تک بیان کر دیں ۔ اس طرح مولانا اصلاحی صاحب کی ذات میں ’فتنہ درایت‘ ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ ٭ مولانا اصلاحی رحمہ اللہ کے بعد ان کے شاگرد جناب جاوید احمد غامدی نے اپنی کتاب ’میزان‘ میں ’مبادی تدبر حدیث‘ کے عنوان سے انکارِ احادیث کے درایتی اصول پیش کیے ہیں ۔ مولانا ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ (م ۱۴۰۰ھ) پر بھی مولانا اصلاحی کے قرب کی وجہ سے ان کے تصور ’درایت‘ کے اثرات ملتے ہیں ، لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ مولانا مودودی رحمہ اللہ (م ۱۴۰۰ھ)بھی اپنی بعض تحریروں مثلا تفہیمات‘اور ’رسائل و مسائل‘وغیرہ میں ’درایت‘ کی بنیاد پر بعض صحیح اور متفق علیہ احادیث مبارکہ کارد کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں علی گڑھ یونیورسٹی(انڈیا) کے شعبہ اسلامیات کے سابقہ چیئرمین علامہ تقی امینی صاحب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’نقد حدیث کا درایتی معیار ‘میں ’درایت‘ کی بنیاد پر خبر کے مردود ہونے کے اصول تفصیل سے پیش کیے ہیں اور ان کی نسبت بعض سلف صالحین کی طرف کی ہے۔حال ہی میں ماہنامہ’ الشریعہ‘ کے مدیر اور ادارہ المورد کے ڈپٹی ڈائریکٹر عمار خان ناصر صاحب نے اپنے ایک مضمون’علم حدیث میں نقد روایت کا درایتی تصور ‘ میں احادیث صحیحہ کے ردو قبول کے لیے کچھ درایتی اصول بیان کیے ہیں اور ان اصولوں کوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور فقہاء عظام رحمہم اللہ سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ۔یہ مضمون ماہنامہ ’الشریعہ‘ اور بعد میں کچھ ترمیم و اضافوں کے ساتھ ماہنامہ ’اشراق‘میں شائع ہواہے ۔ ان حضرات کی طرف سے ایک اعتراض، جسے یہ حضرات باربار بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ محدثین اورائمہ سلف رحمہم اللہ نے احادیث کی جانچ پڑتال کے لیے جو اصول وضع کیے تھے، وہ صرف ’سند ِحدیث‘ سے متعلق تھے یعنی ان حضرات کے بقول محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک کسی حدیث کے متن کے صحیح یا ضعیف ہونے کے لیے صرف ایک ہی ذریعہ تھا اور وہ اس کی سند ہے۔ جبکہ ان حضرات کا یہ دعوی ہے کہ کسی بھی حدیث کی تصحیح یا تضعیف سند کی تحقیق کے علاوہ اس کے متن کے ذریعے بھی ہونی چاہیے ، بلکہ ان کے ہاں تحقیق روایت میں اصل معیار ہے یہی اور اسی کو یہ حضرات ’درایتی نقد‘ کا نام دیتے ہیں ۔ہم یہ بات یہاں واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے کسی حدیث کے متن کے تصحیح یا تضعیف اور مقبول یا مردود ہونے کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں وہ صرف سند کی تحقیق سے متعلق نہیں ہیں بلکہ ان میں سند ِحدیث کے ساتھ ساتھ متن ِ حدیث کی تحقیق کو بھی ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔مثال کے طور پر محدثین رحمہم اللہ نے صحیح حدیث کی جوپانچ شرائط بیان کی ہیں ان میں سے پہلی تین شرائط کاتعلق حدیث کی سند سے ہے، جبکہ آخری دو کا تعلق یعنی حدیث کا معلول نہ ہونا اور اس میں شذوذ کا نہ پایا جانا براہ راست متن ِحدیث سے ہے۔ لہٰذا یہ دعوی بے بنیاد ہے کہ محدثین رحمہم اللہ حدیث کی تصحیح و تضعیف کے باب میں صرف سند کی تحقیق پر اکتفا کرتے ہیں ۔ اس سلسلہ میں مکمل تفصیل دوسرے باب میں گذر چکی ہے۔ |