کے کردی، لیکن پھر بھی ہم مولانا کے ان بیان کردہ درایتی اصولوں کا نقلی و عقلی دلائل کی روشنی میں ایک جائزہ پیش کر رہے ہیں ۔ 1۔ پہلا اصول ٭ مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)لکھتے ہیں : ’’اِمام ابو حنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ)نے ’درایت‘ کے جو اصول قائم کیے ہیں ، ان میں سے بعض ہم اس مقام پر نقل کرتے ہیں ۔جو حدیث عقل قطعی کے مخالف ہو وہ اعتبار کے قابل نہیں ۔ یہ وہی قاعدہ ہے کہ جس کو ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)نے تمام اصول درایت پر مقدم رکھاہے۔۔۔’تلک الغرانیق العلی‘ کی حدیث میں بیان کیاگیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی زبان سے سورۃالنجم کی تلاوت کے وقت بتوں کی تعریف میں یہ الفاظ ادا ہوئے: تلک الغرانیق العلی وإن شفاعتھم لترتجی،یعنی یہ بت بہت معزز ہیں اور ان کی شفاعت کی امید کی جا سکتی ہے۔ یہ الفاظ شیطان نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ادا کروا دیے تھے۔ اس حدیث کو اِمام صاحب رحمہ اللہ کے اصول کے موافق بعض محدثین رحمہم اللہ مثلا قاضی عیاض رحمہ اللہ (م ۵۴۴ ھ)اورابوبکر بیہقی رحمہ اللہ وغیرہ نے غلط کہا، لیکن محدثین رحمہم اللہ کا ایک بڑا گروہ اس کو اب بھی صحیح تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح رد الشمس کی حدیث کو، جس میں بیان کیاگیاہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز عصر قضاء ہو گئی تھی اس لیے آنحضرت کی دعا سے آفتاب غروب ہونے کے بعد پھر طالع ہوا۔ محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)نے جرأت کر کے موضوع کہا ، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)اور جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ و غیرہ نے نہایت شدت سے مخالفت کی ہے ۔‘‘۳؎ مولانا شبلی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)کا یہ کہنا کہ جو بھی روایت عقل ِقطعی کے خلاف ہو گی عقلا اورنقلا ہر دونوں اعتبار سے صحیح نہیں ہے اور نہ ہی محدثین کرام رحمہم اللہ نے کوئی ایسے اصول بیان کیے ہیں کہ جن کے مطابق عقل کے منافی روایت قابل قبول نہیں کی جاتی ۔ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ھ) نے موضوع احادیث کی علامات میں سے ایک علامت یہ بیان کی ہے کہ اس حدیث کا مضمون عقل کے خلاف ہو، لیکن ہم یہ بھی دیکھتے ہیں تما م ایسی روایات جو کہ خلاف عقل معجزات نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کر رہی ہیں ۔ علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ھ)ان کی صحت کو قبول کرتے ہیں ۔ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ھ)کے اس اصول کا مفہوم یہ ہے کہ حدیث کا مضمون کسی ایسی بات پر مشتمل ہو کہ مومن کی عمومی فہم و فراست شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں ایسی بات کے ہونے سے اباء کرتی ہو، مثلا شارع کا جھوٹ بولنا یا اس روایت میں ایسی باتیں ہوں جو کہ شرعاً یا بداہتا ً باطل ہوں ، جیسے اجسام کا قدیم ہونا یا صانع کی نفی وغیرہ۔ اسی طرح قاضی عیاض رحمہ اللہ یا اما م بیہقی رحمہ اللہ (م ۴۵۸ ھ)نے قصہ غرانیق والی روایت کو خلاف عقل ہونے کی وجہ سے رد نہیں کیابلکہ اسے اس کے اضطراب ،انقطاع اور ضعف رواۃ کی وجہ سے مردود قرار دیاہے۔ ٭ اِمام ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) لکھتے ہیں: و قد تجرأ أبو بکر ابن العربی کعادتہ فقال ذکر الطبری فی روایات کثیرۃ باطلۃ لا أصل لھا وھو اطلاق مردود علیہ و کذا قول عیاض ھذا الحدیث لم یخرجہ أحد من أھل الصحۃ ولا رواہ ثقۃ بسند سلیم متصل مع ضعف نقلتہ و اضطراب روایاتہ و انقطاع سندہ۴؎ ’’ابوبکر ابن عربی رحمہ اللہ (م ۵۴۳ھ)نے اپنی عادت کے مطابق جرأت کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ طبری رحمہ اللہ (م ۳۱۰ھ)نے اس بارے میں بہت روایتیں ذکر کی ہیں جو کہ باطل ہیں اور ان کی کوئی اصل نہیں ہے اور ابو بکر کایہ قول مردود ہے ۔اسی طرح قاضی عیاض رحمہ اللہ کا(م۵۴۴ ھ) یہ کہنا بھی مردود ہے کہ اہل صحت میں کسی نے بھی اس حدیث کو نقل نہیں کیااور نہ ہی کسی ثقہ نے اس روایت کو صحیح متصل سند سے بیان کیا ہے اوراس روایت کے راوی ضعیف ہیں اور اس کے طرق مضطرب ہیں اورا س کی اِسناد منقطع ہیں ۔‘‘ |