Maktaba Wahhabi

91 - 432
ولم یزل السلف والخلف من الائمۃ یعتنون بالرحلۃ ۲۷؎ ’’ ائمہ سلف وخلف ہمیشہ (طلب حدیث کے لیے) اسفار کا اہتمام کرتے رہے ہیں ۔ ‘‘ مذکورہ بالا واقعات اور اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ حدیث کے لیے اِسناد وہی حیثیت اختیار کر گئی جو کسی بھی عمارت کے لیے اس کی بنیاد کی ہوتی ہے اور یہ بات معروف ہو گئی کہ جیسے بنیاد کے بغیر عمارت کا اور روح کے بغیر بدن کا قیام ناممکن ہے اسی طرح سند کے بغیر حدیث کا تصور بھی ناممکن ہے ۔ یوں حدیث دو حصوں کا نام بن گئی ، سند اور متن ۔ ایک متن جتنی سندوں سے مروی ہوتا محدثین رحمہم اللہ اسے اتنی ہی احادیث قرار دیتے لیکن اگر کسی متن کی ایک سند بھی نہ ہوتی تو اسے کچھ حیثیت نہ دیتے ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا فتنے بڑھتے گئے ، باطل عقائد ونظریات جنم لینے لگے ، اپنے اپنے افکار کی تائید وتقویت میں روایات گھڑی جانے لگیں تو محدثین رحمہم اللہ کی تحقیق میں بھی مزید شدت آتی گئی اور وہ نقد ِحدیث کے کڑے سے کڑے اصول مقرر کرتے گئے ۔ نقد ِ سند کے حوالے سے محدثین رحمہم اللہ نے بنیادی طور پر تین چیزوں کا لحاظ رکھا ہے : 1۔ راوی کا کردار (عدالت) 2۔ راوی کی صلاحیت (ضبط) 3۔ اتصالِ سند ان اصولوں کا بیان آئندہ اَوراق میں بالاختصار پیش کیا جائے گا ۔ لیکن اس سے پہلے یہ بات ذکر کرنا بھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سند کا یہ اہتمام جو ائمہ سلف وخلف رحمہم اللہ اور محدثین رحمہم اللہ نے کیا ہے صرف اس امت کا ہی خاصہ ہے ، یہ نعمت کسی دوسری قوم کو حاصل نہیں ۔ چنانچہ حافظ ابن الصّلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ) نے اِسناد کے بارے میں فرمایا ہے کہ أصل الاسناد أولا خصیصۃ فاضلۃ من خصائص ھذہ الأمۃ ۲۸؎ ’’اِسناد کا اہتمام صرف اس امت کے خصائص میں سے ایک خصوصیت ہے ۔ ‘‘ ٭ اِمام ابوحاتم رازی رحمہ اللہ (م ۳۲۷ ھ)نے فرمایا ہے: لم یکن فی أمۃ من الامم منذ خلق اﷲ آدم أمناء یحفظون آثار نبیھم إلا فی ھذہ الأمۃ ۲۹؎ ’’جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا ہے اس وقت سے آج تک کسی بھی امت نے اپنے نبیوں کے آثار کی حفاظت نہیں کی سوائے اس امت کے ۔ ‘‘ ٭ اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کا قول ہے : نقل الثقۃ کذلک یبلغ الی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم خص اللّٰہ بہ المسلمین دون سائر أھل الملل کلھا ۳۰؎ ’’ثقہ راوی کا ثقہ راوی سے (کوئی بات) نقل کرنا حتی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ جائے ، یہ خصوصیت اللہ تعالیٰ نے تمام ملتوں میں صرف مسلمانوں کو ہی عطا فرمائی ہے ۔ ‘‘ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ)نے نقل فرمایا ہے: الإسناد خصیصۃ لھذہ الأمۃ ۳۱؎ ’’اِسناد صرف اس امت کی خصوصیت ہے ۔ ‘‘ ٭ شیخ الاسلام اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ ھ) نے فرمایا ہے: الإسناد من خصائص ھذہ الأمۃ ومن خصائص الإسلام ثم ھو فی الإسلام من خصائص أھل السنۃ ۳۲؎ ’’اِسناد اس امت کی ایک خصوصیت ہے ، یہ (پہلے) اسلام کی خصوصیت ہے اور پھر اسلام میں اہل السنۃ کی خصوصیت ہے ۔ ‘‘
Flag Counter