Maktaba Wahhabi

93 - 432
2۔ جھوٹا ،جو عام گفتگو میں جھوٹ بولتا ہو، اگرچہ اس پر حدیث ِنبوی میں جھوٹ بولنے کا اتہام نہ بھی ہو ۔ 3۔ بدعتی ، جو لوگوں کو اپنی بدعت کی طرف بلائے ۔ 4۔ ایسا شیخ جو بڑا فضل والا اور عبادت گزار ہو مگر جو حدیث بیان کر رہا ہے اسے نہ جانتا ہو ۔‘‘ ۳۷؎ ٭ اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ ھ) سے دریافت کیا گیا کہ کس شخص سے حدیث نقل کی جائے توانہوں نے فرمایا: ’’ سب سے نقل کی جائے سوائے تین قسم کے لوگوں کے : 1۔ بدعتی جو اپنی بدعت کی طرف دعوت دے ۔ 2۔ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والا ۔ 3۔ ایسا شخص جو حدیث کے معاملے میں غلطیاں کرے ، پھر جب اسے اس کی غلطی بتائی جائے تو تسلیم نہ کرے ۔‘‘ ۳۸؎ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ) نے فرمایا: ’’ جس کی غلطیاں بہت زیادہ ہوں اس کی حدیث قبول نہ کی جائے۔‘‘ ۳۹؎ اس قسم کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ متقدم محدثین رحمہم اللہ نے ان شروط کا ذکر تو کیا تھا مگر انہیں کوئی خاص نام نہیں دیا تھا ۔پھر متاخر محدثین رحمہم اللہ کے سامنے یہ تمام اقوال موجود تھے۔ انہوں نے ان میں غوروفکر کر کے دو لفظوں میں ان کا خلاصہ پیش کر دیا: ایک عدالت اور دوسرا ضبط۔ ان شرائط کا بیان آئندہ سطور میں ملاحظہ فرمائیے۔ عدالت کا معنی ومفہوم لغوی مفہوم ٭ لفظ ِعدالت ’عدل ‘سے ماخوذ ہے اور عدل کا معنی ہے ’انصاف ‘ اور یہ ظلم وجور کی ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔۴۰؎ قرآن میں بھی یہ لفظ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ اعْدِلُوْا ھُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَی﴾ ۴۱؎ ’’انصاف کرو ، یہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے ۔ ‘‘ ٭ عدل کا ایک معنی فدیہ بھی ہے ۔۴۲؎ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے: ﴿ وَ لَا یُقْبَلُ مِنْھَا عَدْلٌ ﴾ ۴۳؎ ’’ اور اس سے کوئی فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا ۔ ‘‘ ٭ عدل کا ایک معنی مساوات ، مثل اور نظیر بھی ہے ۔۴۴؎ قرآن میں ہے کہ ﴿ وَھُمْ بِرَبِّھِمْ یَعْدِلُوْنَ﴾ ۴۵؎ ’’اور وہ اپنے رب کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ یعنی دوسروں کو اپنے رب کے برابر قرار دیتے ہیں ۔ اسی لیے اِمام زین الدین رازی رحمہ اللہ (م۷۷۷ھ)نے فرمایا ہے: العادل المشرک الذی یعدل بربہ۴۶؎ ’’ عادل وہ مشرک ہے جو (دوسروں کو) اپنے رب کے برابر قرار دیتا ہے ۔‘‘ ٭ عدل ایسے شخص کو بھی کہا جاتا ہے جس کی بات اور حکم پسندیدہ ہو ۔۴۷؎ قرآن میں ہے کہ
Flag Counter