﴿ وَأَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ ﴾ ۴۸؎ ’’اور اپنے میں سے دو عادل شخص گواہ مقرر کر لو ۔ ‘‘ اس آیت میں موجود لفظ ِ عدل کی تفسیر خود اللہ تعالیٰ نے دوسرے مقام پر ان لفظوں میں فرمائی ہے: ﴿ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّھَدَائِ ﴾ ۴۹؎ ’’ایسے گواہ جنہیں تم پسند کرتے ہو ۔ ‘‘ لفظ ِعدل کو اس معنی میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے بھی استعمال فرمایا تھا ۔ انہوں نے حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ أنت عندنا العدل الرضا فماذا سمعت ؟۵۰؎ ’’ آپ ہمارے نزدیک پسندیدہ عادل شخص ہیں (فرمائیے) آپ نے کیا سنا ہے ؟‘‘ اصطلاحی مفہوم اصطلاحِ محدثین رحمہم اللہ میں عدالت کا مفہوم یہ ہے کہ راوی مسلمان ،بالغ اور عاقل ہو ، اسباب ِ فسق سے محفوظ ، اسلامی آداب واخلاق کا پابند اور ان کے برخلاف اُمور سے اجتناب کرنے والا ہو ۔۵۱؎ ٭ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے عدالت کی تعریف یوں فرمائی ہے: من عرف بأداء فرائضہ ولزوم ما أمر بہ،وتوقی ما نھی عنہ ، وتجنب الفواحش المسقطۃ وتحری الحق والواجب فی أفعالہ ومعاملتہ والتوقی فی لفظہ بما یثلم الدین والمروۃ فمن کانت ھذہ حالہ فھو الموصوف بأنہ عدل فی دینہ ومعروف بالصدق فی حدیثہ ۵۲؎ ’’(عادل راوی وہ ہے) جو فرائض واوامر کی تعمیل کرنے والا ہو ، ممنوع اُمور اور فواحش سے بچنے والا ہو، اپنے افعال ومعاملات میں طالب ِحق ہو اور غیر شرعی وغیر اخلاقی کاموں سے اجتناب کرنے والا ہو ، جس شخص میں یہ اوصاف موجود ہوں وہ مستحق ہے کہ اسے دین میں عادل اور روایت ِحدیث میں صادق قرار دیاجائے ۔ ‘‘ ٭ اِمام صنعانی رحمہ اللہ (م ۱۱۸۲ ھ) نے بھی اس سے ملتی جلتی ہی عدالت کی تعریف بیان فرمائی ہے ۔۵۳؎ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے فرمایا ہے: والمراد بالعدل:من لہ ملکۃ تحملہ علی ملازمۃ التقوی والمروئۃ،والمراد بالتقوی:اجتناب الأعمال السیئۃ من شرک أو فسق أو بدعۃ۵۴؎ ’’عادل شخص وہ ہے جس میں ایسی قوت موجود ہو جو اسے تقویٰ واخلاقیات اپنانے پر آمادہ کرے اور تقویٰ سے مراد شرک ، فسق اور بدعت جیسے برے اعمال سے اجتناب ہے ۔‘‘ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ محدثین رحمہم اللہ کی نظر میں عدالت ِ راوی سے مراد یہ ہے کہ راوی کو دینی اُمور میں استقامت ِتامہ حاصل ہو اور وہ اسباب فسق اور غیر اخلاقی اُمور سے مکمل طور پر بچنے والا ہو۔ ٭ یہاں یہ بات واضح رہے کہ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ عادل راوی سے کبھی بھی کوئی غلطی نہ ہوئی ہو یا اس سے کوئی معمولی گناہ بھی سرزد نہ ہوا ہو، کیونکہ یہ تو ممکن ہی نہیں ۔ بلاشبہ ساری اولاد ِآدم خطا کار ہے لیکن ان خطاکاروں میں بہترین شخص وہ ہے جو فوراً توبہ کر لے۔۵۵؎ لہٰذا وہ راوی عادل ہی ہو گا جس میں معمولی غلطیاں موجود ہوں ، کبھی گناہ ہو جائے تو وہ فوراً توبہ کر لے ، کسی گناہ پر اصرار |