Maktaba Wahhabi

95 - 432
نہ کرے اور لوگوں میں اس کی اچھی شہرت غالب ہو ۔ یہ وضاحت خود ائمہ محدثین رحمہم اللہ نے بھی فرما دی تھی۔ ٭ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے سعید بن مسیب رحمہ اللہ (م ۹۴ ھ) کا یہ قول نقل فرمایا ہے: لیس من شریف ولا عالم ولا ذي سلطان إلا وفیہ عیب لا بد ولکن من الناس من لا تذکر عیوبہ،من کان فضلہ أکثر من نقصہ ۵۶؎ ’’کوئی شریف شخص ہو ، عالم دین ہو یا سلطنت پر فائز ہو اس میں کوئی نہ کوئی عیب ضرور ہوتا ہے مگر (مقصود یہ ہے کہ) لوگوں میں ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے عیوب ذکر نہیں کیے جاتے اور ان کا فضل ان کے نقص سے زیادہ ہوتا ہے ۔ ‘‘ ٭ اسی طرح اِمام ابن الوزیر رحمہ اللہ (م ۸۴۰ ھ) نے اِمام شا فعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ھ) کا یہ قول نقل فرمایا ہے: لو کان العدل من لا ذنب لہ لم نجد عدلا،ولوکان کل مذنب عدلا لم نجد مجروحا،ولکن العدل من اجتنب الکبائر وکانت محاسنہ أکثر من مساوئہ ۵۷؎ ’’اگر عادل شخص وہ ہو جس کا کوئی گناہ نہ ہو تو ہم ایسے کسی عادل شخص کو نہیں پاتے اور اگر ہر گناہگار شخص عادل ہو تو ہم کسی مجروح کو نہیں پاتے ، تاہم عادل وہ ہے جو کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والا ہو اور اس کی اچھائیاں اس کی برائیوں سے زیادہ ہوں ۔ ‘‘ ٭ عدالت کا ایک دوسرا مفہوم بھی کچھ لوگوں نے بیان کیا ہے کہ ’’عدالت صرف ظاہری طور پر اظہار ِاسلام اور غیر شرعی اُمور سے اجتناب کا نام ہے ، لہٰذا ہر مجہول مسلمان بھی عادل قرار پائے گا ۔‘‘ جیسا کہ اِمام ابن اثیر جزری رحمہ اللہ (م ۶۰۶ ھ) نے ایک قوم کے حوالے سے اور خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے اہل عراق کے حوالے سے نقل فرمایا ہے۔۵۸؎ ان لوگوں نے اپنے اس موقف کی تائید میں ایک دلیل یہ پیش کی ہے: عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال:(( أن أعرابیا جاء إلی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم فقال إنی رأیت الھلال فقال:أ تشھد أن لا إلہ إلا اللّٰہ ؟ قال نعم ‘ قال أ تشھد أن محمدا رسول اللّٰہ ؟ قال نعم ‘ قال:فأذن فی الناس یا بلال ! أن یصوموا غدا)) ۵۹؎ ’’ حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ میں نے رمضان کا چاند دیکھ لیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تو شہادت دیتا ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ؟ اس نے کہا’’ہاں ‘‘۔ پھر آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے دریافت کیا ‘کیا توشہادت دیتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ؟ تو اس نے کہا’’ہاں ‘‘۔ اس پر آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا کہ اے بلال!لوگوں میں اعلان کردو آئندہ کل روزہ رکھیں ۔ ‘‘ اس روایت میں ان حضرات کا مستدل یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کے صرف ظاہری اسلام کا اعتبار کرتے ہوئے اس کی خبر قبول فرمائی ہے لہٰذا کسی بھی شخص کا ظاہری اسلام اس کے عادل ہونے کے لیے کافی ہے ۔ ان کی اس دلیل کا مختصر اور جامع جواب یہ ہے کہ جس شخص کی خبر کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمایا وہ صحابی تھا اور امت کا اجماع ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں ۔۶۰؎ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے ان حضرات کے دیگر دلائل بھی ذکر کر کے ان کا مناقشہ کیا ہے اور ان کی تردید فرمائی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ عدالت ظاہری اسلام سے زائد چیز ہے جو راوی کے افعال واحوال کی تحقیق وتفتیش کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے ۔۶۱؎ بالفاظ ِدیگر کوئی بھی راوی اس وقت تک عادل قرار نہیں دیا جائے گا جب تک اس کے اعمال وافعال اور تصرفات ومعاملات کی مکمل تحقیق اور اس کے ہر قسم کے عیوب کے کشف واظہار کی ہر ممکن کوشش نہ کر لی جائے ۔
Flag Counter