Maktaba Wahhabi

361 - 432
سعادۃ ابن آدم المرأۃ الصالحۃ والمسکن الصالح و المرکب الصالح ومن شقوۃ ابن ادم المرأۃ السوء والمسکن السوء والمرکب السوء ۳۰؎ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نیک عورت ، سازگار گھر اور نرم مزاج سواری انسان کے لئے سعادت اور نیکی کاباعث ہیں لیکن بے دین عورت اور ناموافق گھر اور بدمزاج سواری انسان کے لئے شقاوت اور دینی خرابی کا سبب بنتے ہیں ۔‘‘ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ)کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ قرآن کریم میں بعض بیوی بچوں کو انسان کے لئے نقصان دہندہ اور اس کے دشمن کہا گیا ہے اور یہ وہ ہیں جو انسان کے لئے دین کے نقصان اور اس کی خرابی کا سبب بنتے ہیں اور ترک دین کی دعوت دیتے ہیں اور اسے خلاف شریعت کام پر مجبور کردیتے ہیں اسی طرح کسی عورت کے تبرج کی وجہ سے اس کے ساتھ ناجائز تعلق پیدا ہوجائے تو وہ بھی خواہ مخواہ دین خراب کردیتی ہے، قرآنی آیت میں ان کے دشمن ہونے کا یہ معنی ہے اور حدیث پاک میں ان کے شوم سے بھی یہی مراد ہے۔ شوم کا معنی منحوس ہونا نہیں ہے جیسا کہ اہل جاہلیت سمجھتے تھے، اسی طرح گھوڑا چارہ کھانے والاہو لیکن جہا دمیں کام دینے والا نہ ہو بلکہ فرار اختیار کرنے والا ہو اور گھر کا ماحول برا اور اس کے پڑوسی بددین ہوں تو یہ بھی انسان کے لئے دین کے لحاظ سے نقصان دہ اور اس کے دینی دشمن ہیں اور ان کے شوم سے مراد بھی یہی ہے شوم بمعنی نحوست نہیں ہے۔ 5۔ ’اہل درایت‘ کی طرف سے یہ روایت بھی اپنے موقف کے اثبات میں عام طور پر پیش کی جاتی ہے کہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ نے جب یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے دوزخ میں داخل کردیا کیونکہ وہ نہ اس کو خود کھلاتی پلاتی تھی اور نہ اسے چھوڑتی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھالے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ حدیث سن کر کہا: المؤمن أکرم عند اللّٰہ من أن یعذبہ فی جرء ہرۃ، أما إن المرأۃ من ذلک کانت کافرۃ۔أباہریرۃ! إذا حدثت عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فانظر کیف تحدث؟۳۱؎ ’’ اللہ کے ہاں مومن کا مرتبہ اس سے کہیں زیادہ ہے کہ وہ اس کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دے۔ یہ عورت درحقیقت کافر تھی۔ نیز فرمایا: اے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ! جب بھی آپ رسو ل کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی روایت نقل کیا کریں توواقعہ کے جمیع پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر روایت کیا کریں ۔‘‘ تبصرہ انصاف کی نگاہ سے دیکھئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کو خلاف عقل کہہ کر رد نہیں کیا بلکہ اسے صحیح تسلیم کرتے ہوئے اس پر اس عورت کے کافر ہونے کا اضافہ کیا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو مسلمان نہیں کہا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو اس کی تردید کی ضرورت پیش آئی ہو، لہٰذا اس حدیث کو’ درایتی اصول‘ سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ نیز آپ دیکھ سکتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت ابو ہریرہ کی تحمل روایت میں واقعہ فہمی سے اختلاف کیا ہے، جیساکہ روایت کے آخر میں انہوں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو تلقین کی ہے: یا أبا ہریرۃ إذا حدثت عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فانظر کیف تحدث اور یہ بات اِستدراکات کے منہج میں وضاحت پیچھے گذر چکی ہے کہ تحمل واقعہ میں راوی کے مشاہدہ کی غلطی کی اصلاح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا عمومی مزاج تھا اور یہی اِستدراکات کا عمومی موضوع ہے۔ مزید برآں جیساکہ پیچھے گذر چکا ہے کہ تحمل واقعہ میں مختلف صحابہ الفاظ کا چناؤ اپنی ذہنی نوعیت کے اعتبار سے کرتے ہیں اور صحیح اسلوب یہ ہے کہ تمام شاہدین کی شہادتوں کو اکٹھا کرکے واقعہ کی تصویر مکمل کی جائے، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک واقعہ کو بیان کیا
Flag Counter