Maktaba Wahhabi

328 - 432
٭ علامہ البانی رحمہ اللہ (م ۱۴۲۰ ھ)نے السلسلۃ الصحیحۃمیں لکھا ہے:إسنادہ حسن علی شرط مسلم۲۰؎ جن آئمہ نے اس حدیث کی صحت پر کلام کیا ہے ان میں سے چند علماء کے اقوال ملاحظہ فرمائیں: ٭ اِمام ابن رجب رحمہ اللہ ن(م ۷۹۵ ھ)ے العلوم والحکم میں اس روایت کو ’معلول‘ قرار دیا ہے۔ ۲۱؎ ٭ اِمام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۲۵۰ ھ)نے الفوائد المجموعۃمیں اس حدیث کے بارے میں لکھا ہے کہ خود اس حدیث کو سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ،لہٰذا ا س روایت کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت بعید ہے۔۲۲؎ ٭ اِمام شوکانی رحمہ اللہ (م ۱۲۵۰ ھ) کے بقول اس حدیث کو اگر اس کے متن میں بیان شدہ معیار پر پیش کیاجائے تو یہ اس پر پوری نہیں اترتی چہ جائیکہ اس حدیث کو باقی احادیث کی صحت و ضعف کا معیار بنایا جائے۔۲۲؎ اصلاحی صاحب (م ۱۴۱۸ ھ)نے اپنی کتاب میں ا س حدیث کو ’الکفایہ‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے۔علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے اس حدیث کو عمارہ بن غزیہ کے طریق سے عبد الملک بن سعید بن سوید سے بیان کیا ہے ، جبکہ سوید ، ابی اسید سے اور وہ ابو حمید اور وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں ، چنانچہ اس حدیث کی سند میں انقطاع ہے ۔ ٭ مولانا غازی عزیر مبارکپوری حفظہ اللہ نے اپنے ایک مقالہ بعنوان’اصلاحی نظریہ حدیث‘ میں اس حدیث کے راوی’ عبد الملک‘ کو ضعیف ثابت کیا ہے ۔ ۲۳؎ پس یہ روایت مذکورہ بالا انقطاع ِسند اور ایک راوی کے ضعف کی وجہ سے ضعیف قرار پائے گی۔ اگر توذاتی کشف ‘ ذوق ‘ الہام‘ القاء‘ فراست‘ نور قلب اور خواب وغیرہ کوحدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کی بنیاد بنایاجائے تو ہرفقیہ اور محدث کے نزدیک صحیح اور ضعیف کا ذخیرہ علیحدہ علیحدہ ہو گا۔ تعجب تو اس بات پر ہے کہ فیصلہ حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کا کیا جا رہا ہے اور اس کے لیے معیار اور کسوٹی ایک ایسی چیز کو بنایا جا رہا ہے، جو کہ حدیث کے ذاتی اوصاف میں سے نہیں ہے ۔آئمہ محدثین رحمہم اللہ نے حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے کے جتنے بھی اصول بیان کیے ہیں ، وہ سب حدیث(یعنی سند یا متن) کے ذاتی اوصاف میں شامل ہیں ۔ اگر تو کسی محدث یا فقیہ کے ذوق کو کسی حدیث کے ضعیف ہونے کی کسوٹی بنا لیا جائے، تو حنفی فقہاء رحمہم اللہ کے نزدیک ہر وہ حدیث ضعیف ہو گی جو کہ فقہ شافعی کی مؤید ہے اور فقہائے شوافع رحمہم اللہ کے نزدیک فقہ حنفی کے اثبات میں مروی احادیث ضعیف قرار پائیں گی۔ اصلاحی صاحب رحمہ اللہ (م ۱۴۱۸ ھ)کے اسی بیان کردہ اصول نے صوفیاء کے ہا ں غلو کی شکل یوں اختیار کی کہ انہوں نے بغیر سند کے یہ دعویٰ کرنا شروع کر دیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے یہ بات بیان کی ہے ۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ٭ معروف صوفی شیخ ابن عربی(م ۶۳۸ ھ) اپنی کتاب الفتوحات المکیۃمیں بیان کرتے ہیں : حدثنی قلبی عن ربی۲۴؎ ’’میرے دل نے اپنے رب سے یہ بات نقل کی ہے ۔‘‘ ٭ اسی طرح ابن عربی (م ۶۳۸ ھ) نے اپنی کتاب ’مکتوبات‘ اور ’الفتوحات المکیہ‘ وغیرہ میں متعدد مقامات پر یہ لکھاہے : عرفت صحۃ الحدیث بصحۃ کشفہ و صحۃ کشفہ بصحۃ الحدیث۲۵؎ ’’میں نے حدیث کی صحت کو اپنے کشف کی صحت سے اور کشف کے صحیح ہونے کو حدیث کے صحیح ہونے سے معلوم کیا ہے۔‘‘ اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ یہ حدیث صحیح ہے، جیسا کہ بعض محدثین رحمہم اللہ نے اس کو صحیح یا حسن قراردیاہے تو پھر بھی ہم یہ کہیں گے کہ ہر وہ حدیث جو کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے بیان کردہ اصولوں کے مطابق مقبول قرار پاتی ہے میرا دل اس حدیث کو معروف خیال کرتا
Flag Counter