مجروحا،ومن خرج عن حد العدالۃ لا یعتمد علی صدقہ۸۳ ؎ ’’ان مجروحین میں وہ شخص بھی شامل ہے جس کا فسق اور بے وقوفی ظاہر ہو اگرچہ وہ اپنی روایت میں سچا ہی ہو کیونکہ فاسق عادل نہیں ہوتا اور عادل مجروح نہیں ہوتا اور جو عدالت کی حد سے خارج ہو جائے اس کا صدق بھی معتبر نہیں ۔ ‘‘ ٭ اِمام الحرمین الجوینی رحمہ اللہ (م ۴۷۸ھ) نے فرمایا ہے: ’’حنفیہ فاسق کی روایت کو قابل قبول قرار نہیں دیتے ۔‘‘ ۸۴ ؎ فاسق کی روایت کو محدثین رحمہم اللہ منکر قرار دیتے ہیں ۔ جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م۸۵۶ھ) نے فرمایا ہے: ’’ جس کا فسق ظاہر ہو جائے اس کی حدیث منکر ہے ۔‘‘ ۸۵ ؎ 3۔ بدعت بدعت یہ ہے کہ دین مکمل ہو جانے کے بعد اس میں کسی نئی چیز کا اضافہ کر دیا جائے، بالفاظ ِدیگر دین میں ایسے عقائد و اعمال اور رسوم ورواج کا اضافہ بدعت کہلاتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہیں ۔ کسی بدعت کا ارتکاب کرنے والے راوی کی روایت کی قبولیت کے متعلق کچھ تفصیل ہے کہ آیا وہ بدعت مکفّرہ کا مرتکب ہے یا بدعت مفسّقہ کا۔ ٭ بدعت مکفّرہ سے مراد دین کے مسلّمات اور بنیادی نظریات کا انکار یا ان کے برعکس اعتقاد رکھنا ہے جیسا کہ کوئی یہ اعتقاد رکھے کہ علی رضی اللہ عنہ یا کوئی اور الوہیت کے مرتبہ پر فائز ہے یا یہ اعتقاد کہ لوگوں کو قیامت سے پہلے ایک بار پھر دنیا میں بھیجا جائے گا وغیرہ وغیرہ ۔ ایسی بدعت کے مرتکب شخص کی روایت مطلقاً قابل قبول نہیں ۔ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ) ۸۶ ؎ اور اِمام جزری رحمہ اللہ (م ۶۰۶ ھ) ۸۷ ؎ نے اس بات پر اہل علم کا اتفاق نقل فرمایا ہے ۔ ٭ اِمام ابن کثیر رحمہ اللہ (م ۷۷۴ ھ) نے فرمایا ہے: فلا إشکال فی رد روایتہ۸۸ ؎ ٖٖ’’ایسے شخص کی روایت رد کرنے میں کوئی اشکال نہیں ۔ ‘‘ ٭ سراج الدین عمر انصاری رحمہ اللہ (م۸۰۴ھ) نے بھی بدعت مکفّرہ کے مرتکب راوی کی روایت مردود ہونے پر اتفاق نقل کیا ہے ۔۸۹ ؎ ٭ بدعت مفسّقہ سے مراد ایسی بدعت ہے جس سے کفر تو لازم نہ آئے مگر اس کے مرتکب کی عدالت ِتامہ بھی برقرار نہ رہے جیسے غیرغالی خوارج وروافض وغیرہ کی ایجاد کردہ بدعات ہیں ۔ اس بدعت کا مرتکب فاسق قرار پاتا ہے ۔ اس کی روایت قابل قبول ہے یا نہیں اس کے متعلق اختلاف ہے، البتہ جمہور کی رائے یہ ہے کہ ایسے راوی کی روایت دو شرطوں سے قبول ہے : 1۔ وہ اپنی بدعت کا داعی نہ ہو ۔ 2۔ وہ کوئی ایسی حدیث روایت نہ کرے جو اس کی بدعت کی مؤید ہو ۔ ٭ یہ مؤقف اِمام احمد(م ۲۴۱ ھ) ، اِمام ابن مبارک (م ۱۸۱ ھ) ، اِمام ابن مہدی(م ۱۹۸ھ) ، یحییٰ بن معین (م ۲۳۳ھ) اور اِمام مالک(م ۱۷۹ھ) رحمہم اللہ سے منقول ہے۔۹۰؎ ٭ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ھ) فرماتے ہیں : |