ھذا مذھب الکثیر أو الأکثر من العلماء ۹۱ ؎ ’’ اکثر علماء کا یہی موقف ہے ۔ ‘‘ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے فرمایا ہے: ھذا المذہب ھو الأعدل وصارت إلیہ طوائف من الأئمۃ وادعی ابن حبان اجماع أھل النقل علیہ، لکن فی دعوی ذلک نظرا۹۲ ؎ ’’یہی موقف سب سے زیادہ اعتدال پر مبنی ہے ، ائمہ کے مختلف گروہوں نے اسے اختیار کیا ہے ، اِمام ابن حبان رحمہ اللہ (م۳۵۴ھ)نے تو اس پر اہل علم کا اجماع نقل کیا ہے لیکن ان کے اس دعوے میں نظر ہے ۔ ‘‘ 4۔ کذب راوی کی عدالت کو مجروح کرنے والا سب سے شدید سبب کذب ہے ۔ جس راوی کے بارے میں حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں کذب بیانی ثابت ہو جائے اس کی روایت کو’ موضوع‘ کہا جاتا ہے ۔ ٭ موضوع روایت کے متعلق علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ) رقمطراز ہیں: ھو الکذب المختلق المصنوع أی کذب الراوي فی الحدیث بأن یروی عنہ ما لم یقلہ متعمدا لذلک۹۳ ؎ ’’جھوٹ ، من گھڑت اور بناوٹی روایت کا نام موضوع ہے یعنی حدیث ِنبوی میں راوی کا جھوٹ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بات بیان کرے جو آپ نے نہیں فرمائی۔‘‘ ایسے راوی کی روایت بالاتفاق مردود ہے ۔ ٭ حافظ عراقی رحمہ اللہ (م ۸۰۶ ھ) نے فرمایا ہے: من تعمد کذبا فی حدیث رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فإنہ لا تقبل روایتہ أبدا وإن تاب وحسنت توبتہ کما قالہ غیر واحد من أھل العلم ، منھم:أحمد بن حنبل ، وأبوبکر الحمیدی،أما الکذب فی حدیث الناس وغیرہ من أسباب الفسق فانہ تقبل روایۃ التائب منہ۹۴ ؎ ’’حدیث ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں عمداً جھوٹ بولنے والے کی روایت کبھی بھی قبول نہیں کی جاتی اگرچہ وہ تائب ہی ہو جائے اور اس کی توبہ اچھی ہی ہو جیسا کہ متعدد اہل علم نے یہ وضاحت فرمائی ہے ، ان میں اِمام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (م ۲۴۱ھ) اور اِمام ابوبکر حمیدی رحمہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ البتہ لوگوں سے گفتگو میں جھوٹ بولنا اسباب ِفسق میں سے ہے ، ایسے شخص کی روایت توبہ کے بعد قبول کی جاتی ہے ۔ ‘‘ محدثین رحمہم اللہ نے ایسی جھوٹی اور من گھڑت روایت کو آگے بیان کرنا بالاتفاق حرام قرار دیا ہے ۔۹۵ ؎ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمداً آپ پر جھوٹ باندھنے والے کے لیے جہنم کی وعید بیان فرمائی ہے ۔۹۶ ؎ 5۔ اِتہام بالکذب اتہام بالکذب سے مراد یہ ہے کہ راوی پر حدیث میں جھوٹ بولنے کا الزام ہو ۔ یہ الزام راوی کے حق میں دو طرح سے ثابت ہوتا ہے : 1۔ وہ کوئی ایسی روایت بیان کرے جو صرف اسی سے مروی ہو اور وہ معلوم شرعی قواعد کے خلاف ہو ۔جیساکہ عن قریب اس باب کی دوسری فصل میں آرہا ہے کہ یہ بات قرائن سے تعلق رکھتی ہے، حتمی دلائل سے نہیں ۔ |