Maktaba Wahhabi

102 - 432
2۔ وہ لوگوں کے ساتھ عام گفتگو میں جھوٹ بولنے میں مشہور ہو مگر حدیث ِنبوی میں اس سے جھوٹ بولنا ثابت نہ ہو ۔۹۷ ؎ ایسے راوی کی روایت کو متروک کہا جاتا ہے ، جو محدثین رحمہم اللہ کے نزدیک مردود ہے ۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م۸۵۲ھ) فرماتے ہیں: القسم الثانی من أقسام المردود وھو ما یکون بسبب تھمۃ الراوی بالکذب،ھو المتروک ۹۸ ؎ ’’مردود کی دوسری قسم وہ روایت ہے جو راوی پر جھوٹ کے الزام کی وجہ سے رد کر دی جاتی ہے ، اسے متروک کہا جاتا ہے ۔ ‘‘ ٭ اِمام طاہر الجزائری رحمہ اللہ (م ۱۳۳۸ ھ) نے فرمایا ہے: ’’ ضعیف حدیث کی ایک قسم یہ ہے کہ اس کے کسی راوی پر جھوٹ کا الزام ہو ، اسی کو متروک کہتے ہیں ۔‘‘ ۹۹ ؎ 6۔ جہالت لغت میں جہالت علم کی ضد ہے اور اصطلاح میں راوی کی شخصیت یا صفات وحالات کے غیر معروف ہونے کا نام جہالت ہے ۔ راوی کے مجہول ہونے کے تین اسباب ہیں : 1۔ راوی کی صفات (جیسے نام ، کنیت ، لقب ، نسب یا پیشہ وغیرہ) بہت زیادہ ہوں اور وہ کسی ایک سے مشہور ہو ، پھر جب کسی دوسری صفت کے ساتھ اس کا ذکر ہو تو اسے کوئی اور راوی سمجھ لیا جائے ۔ جیسے محمد بن سائب بن بشر الکبی راوی ہے ، بعض نے اسے دادا کی طرف منسوب کر کے محمد بن بشر کہا ہے اور بعض نے اسے حماد بن سائب کہا ہے ، کچھ اس کی کنیت ابوالنضراور کچھ ابوہشام بیان کرتے ہیں ۔ 2۔ اس کی روایات بہت کم ہوں جس بنا پر اس کے شاگرد بھی کم ہوتے ہیں جیسے ابو العشراء الدارمی کا صرف ایک ہی شاگرد ہے ۔ 3۔ اس کے نام کی تصریح نہ ہو ، ایسا بعض اوقات اختصار وغیرہ کے پیش نظر ہوتا ہے۔ ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے مجہول راوی کی دو قسمیں بنائی ہیں: 1۔ مجہول العین 2۔ مجہول الحال بعض اہل علم مجہول کی ایک تیسری قسم بھی بناتے ہیں : 3۔ مبہم 1۔ ’مجہول العین‘ وہ راوی ہوتا ہے جس کا نام معلوم ہو مگر اس سے روایت لینے والا صرف ایک شخص ہو ۔ 2۔ ’مجہول الحال‘ وہ ہوتا ہے جس سے روایت لینے والے دو یا زیادہ ہوں مگر اس کی توثیق نہ کی گئی ہو۔ اسے’ مستور‘ بھی کہتے ہیں ۔ 3۔ ’مبہم‘ اسے کہتے ہیں جس کے نام کی تصریح نہ کی گئی ہو ۔ ۱۰۰ ؎ بہ الفاظ دیگر اگر راوی کا نام اور ذات دونوں معلوم نہ ہوں تو اسے ’مبہم‘، اگر نام تو معلوم ہو لیکن ذات معلوم نہ ہو اسے مجہول العین، جبکہ نام وذات معلوم ہوں لیکن حال راوی معلوم نہ ہو کہ وہ ثقہ یا غیر ثقہ تو اسے مجہول الحال یا مستور کہا جاتا ہے۔ ’مجہول العین‘ راوی کی روایت مردود ہوتی ہے، کیونکہ راوی کا نام معلوم نہ ہونے سے مسمی اور ذات کا تعین ممکن نہیں ۔ چنانچہ راوی کی شخصیت کی تحقیق ممکن نہیں ۔ اسی طرح’ مبہم‘ کی روایت بھی قبول نہیں کی جاتی، کیونکہ جب تک اس کے نام کی تصریح نہیں مل جاتی اس کی حیثیت بھی مجہول العین کی سی ہے ۔ نیز ’مجہول الحال‘ (مستور) کی روایت کے متعلق اختلاف تو ہے مگر جمہور ائمہ کے نزدیک اس کی روایت بھی مردود ہی ہوتی ہے۔
Flag Counter