5۔ شہادت میں واقعہ کو آنکھوں سے دیکھنا ضروری ہے جبکہ روایت میں نابیناشخص بھی معتبر ہے۔وغیرہ وغیرہ امام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ) نے بھی صحیح مسلم کے مقدمہ کی شرح میں شہادت اور عدالت میں چھ مختلف فروق بیان کیے ہیں ۔ اِثبات عدالت کے ذرائع ؟ ابتداء ً یہاں یہ بات ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس بحث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شامل نہیں کیو نکہ تمام صحابہ عادل ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے ۔ جیسا کہ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ) وغیرہ نے ذکر فرمایا ہے: الصحابۃ کلھم عدول،من لابس الفتن وغیرھم،باجماع من یعتد بہ۶۷؎ ’’ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم عادل ہیں ، جو فتنوں میں ملوث ہوئے اور جو ان کے علاوہ ہیں (سب) ، اس پر قابل اعتبار علماء کا اجماع ہے ۔ ‘‘ علاوہ ازیں دیگر رواۃ کی عدالت دو ذرائع سے معلوم ہوتی ہے : 1۔ علمائے جرح وتعدیل کی جماعت یا کم از کم ان میں سے کوئی ایک راوی کے عادل ہونے کی تصریح کرے ۔ اس پر تو اتفاق ہے کہ کم ازکم دو افراد کی گواہی سے راوی کی عدالت ثابت ہو جاتی ہے ۔ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ) نے نقل فرمایا ہے: تثبت العدالۃ بتنصیص معدلین ۶۸؎ ’’دو پسندیدہ اشخاص کی گواہی سے عدالت ثابت ہو جاتی ہے ۔ ‘‘ لیکن اختلاف اس میں ہے کہ کیا فرد ِواحد کی شہادت سے عدالت ثابت ہو جاتی ہے یا نہیں ۔ تو اس سلسلے میں راجح موقف یہی ہے کہ فرد ِواحد کی شہادت سے بھی عدالت ثابت ہو جاتی ہے ۔ اِمام ابن الصلاح (م ۶۴۳ ھ) ، خطیب بغدادی (م ۴۶۳ ھ) ، اِمام ابن کثیر (م ۷۷۴ ھ) ، اِمام آمدی (م ۶۳۱ ھ) اور اِمام فخر الدین رازی رحمہم اللہ (م ۶۰۶ ھ) وغیرہ نے بھی اسی رائے کو ترجیح دی ہے ، جیسا کہ سابقہ عنوان ’’راوی اور گواہ کی تعدیل میں فرق ‘‘ کے ضمن میں ان ائمہ کے اقوال ذکر کیے جا چکے ہیں ۔ ٭ مزید برآں اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م ۱۵۰ ھ) اور اِمام ابویوسف رحمہ اللہ (م ۱۸۲ ھ) سے منقول ہے: والذی یوجبہ القیاس،وجوب قبول تزکیۃ عدل مرضی ذکر أو أنثی أو عبد لشاہد ومخبر ۶۹؎ ’’قیاس جس چیز کو واجب قرار دیتا ہے وہ یہ ہے کہ گواہ اور مخبر کے لیے کسی بھی پسندیدہ عادل شخص کی طرف سے تزکیہ قبول کرنا واجب ہے خواہ وہ مرد ہو ، عورت ہو یا غلام ۔ ‘‘ 2۔ اِثبات عدالت کا دوسرا ذریعہ یہ ہے کہ کسی راوی کی عدالت علماء میں اس قدر معروف ومشہور ہو کہ یہ ضرورت ہی باقی نہ رہے کہ کوئی اس کی عدالت کے بارے میں گواہی دے ، جیسا کہ معروف ائمہ اربعہ (اِمام ابوحنیفہ (م ۱۵۰ ھ) ، اِمام مالک (م ۱۷۹ ھ) ، اِمام شافعی (م ۲۰۴ ھ) اور اِمام احمد رحمہم اللہ (م ۲۴۱ ھ)اور اصحاب ِکتب ستہ اِمام بخاری (م ۲۵۶ ھ) ، اِمام مسلم (م ۲۶۱ ھ) ، اِمام ترمذی (م ۲۷۹ ھ)، اِمام ابوداود (م ۲۷۵ ھ) ، اِمام نسائی (م ۳۰۳ ھ)اور اِمام ابن ماجہ رحمہم اللہ (م ۲۷۳ ھ) وغیرہ ۔ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ) نے نقل فرمایا ہے: فمن اشتھرت عدالتہ بین أھل العلم وشاع الثناء علیہ بھا کفی فیھا،کمالک،والسفیانین،والأوزاعی والشافعی، وأحمد وأشباھھم۷۰؎ |