الإسناد سلاح المومن فإذا لم یکن معہ سلاح فبأي شیء یقاتل ؟ ۱۲؎ ’’اِسناد مومن کا ہتھیار ہے ، اگر اس کے پاس ہتھیار ہی نہ ہو تو وہ کس چیز سے جنگ کرے گا ؟ ‘‘ ٭ اِمام شافعی رحمہ اللہ (م ۲۰۴ ھ) نے فرمایا ہے: مثل الذی یطلب الحدیث بلا إسناد کمثل حاطب لیل یحمل حزمۃ حطب وفیہ أفعی وھو لا یدری ’’بلاسند حدیث طلب کرنے والے کی مثال رات کو لکڑیاں چننے والے اس شخص کی طرح ہے جو لکڑیوں کی گٹھری اٹھاتا ہے لیکن نہیں جانتا کہ اس میں ایک سانپ بھی چھپا ہوا ہے ۔ ‘‘۱۳؎ ٭ اِمام شعبہ رحمہ اللہ (م ۱۶۰ ھ) کا قول ہے: کل حدیث لیس فیہ أنا وحدثنا فھو خل وبقل۱۴؎ ’’ہر وہ حدیث جس میں انا اور حدثنا نہیں وہ سرکہ اور سبزی کی مانند ہے ۔ ‘‘ ٭ اِمام موصوف رحمہ اللہ کا ایک دوسرا قول یوں ہے: کل حدیث لیس فیہ حدثنا وأخبرنا مثل الرجل بالفلاۃ معہ البعیر لیس لہ خطام ۱۵؎ ’’ہر وہ حدیث جس میں حدثنا اور اخبرنا نہ ہو ایسے شخص کی طرح ہے جس کے پاس کسی چٹیل میدان میں بغیر لگام کے اونٹ ہو ۔ ‘‘ ٭ اِمام زہری رحمہ اللہ (م ۱۲۵ ھ) سند کے متعلق فرماتے ہیں : لا یصلح أن یرقی السطح الا بدرجۃ ۱۶؎ ’’بغیر سیڑھی کے چھت پر چڑھنا ممکن نہیں ۔ ‘‘ ٭ یوں مرور ِزمانہ کے ساتھ ساتھ ائمہ نقاد کے اذہان میں یہ بات راسخ ہوگئی کہ سند روایت ِحدیث کا ایک ایسا لازمی جز ہے جسے اس سے جدا نہیں کیا جا سکتا اور پھر وہ مختلف اَسالیب سے تحقیق ِسند میں محو ہو گئے ۔ سند کی اسی اہمیت کے پیش نظر صحیح سنت ِنبوی کے حصول، اَسانید کی تحقیق اور علو ِسند کی طلب میں ائمہ محدثین رحمہم اللہ نے طویل اسفار بھی کیے، حتی کہ بعض اوقات تو صرف ایک حدیث کی سند کی خاطر مہینوں کے پرمشقت سفر طے کیے ۔ یہ سلسلہ بھی عہد صحابہ رضی اللہ عنہم سے ہی جاری وساری ہے ۔ چنانچہ ائمہ نے اس عنوان سے اپنی کتابوں میں مستقل ابواب قائم کیے ہیں اور ان میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسفار ِعلمیہ کا تذکرہ کیا ہے ۔ ٭ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) نے اس بارے میں اپنی الجامع الصحیح میں دو عنوان قائم کیے ہیں : 1۔ باب الخروج فی طلب العلم 2۔ باب الرحلۃ فی المسئلۃ النازلۃ ٭ اِمام دارمی رحمہ اللہ (م ۲۵۵ ھ) نے اپنی سنن میں ایک باب یوں قائم کیا ہے : باب الرحلۃ فی طلب العلم والعناء فیہ ٭ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) نے تو اس موضوع پر ایک مستقل رسالہ تصنیف فرمایا ہے جس کا نام الرحلۃ فی طلب العلم ہے ۔ اس ضمن میں چند واقعات واقوال حسب ذیل ہیں : ٭ اِمام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) نے ترجمۃ الباب میں ذکر فرمایا ہے: |