روایت میں امام ابن مدینی رحمہ اللہ (م۲۳۴ ھ) ، امام بخاری رحمہ اللہ (م۲۵۶ھ) اور دیگر حفاظ حدیث نے کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل کعب احبار رحمہ اللہ کا کلام ہے، جو ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے سنا، لیکن پھر کسی راوی کو اشتباہ ہوا اور اس نے اس کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کی طرف کردی ۔‘‘ اس روایت کو اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م ۷۲۸ ھ) نے بھی مجموع فتاوی۴۴؎ اور اپنی کتاب علم الحدیث۴۵؎ پر ہدف تنقید ٹھہرایا ہے۔ نیز حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) نے بھی زاد المعاد میں اور اپنی کتاب المنار المنیف۴۶؎ پر اس حدیث پر ناقدانہ تبصرہ کیا ہے۔ ٭ صحیح بخاری میں نافع سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کنا فی زمن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم لا نعدل بأبی بکر أحدا ثم عمر ثم عثمان ثم نترک أصحاب النبی لا نفاضل بینہم ۴۷؎ ’’ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم عہد رسالت میں فضیلت کے اعتبار سے بالترتیب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، پھر عمر فاروق رضی اللہ عنہ ، پھر عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو درجہ دیتے تھے اور ان اصحاب ثلاثہ کے ماسوی اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کسی کی کسی دوسرے پر کوئی فضیلت نہیں سمجھتے تھے۔‘‘ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ھ) اس روایت پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں : إن ہذا الحدیث خلاف قول أہل السنۃ أن علیا أفضل الناس بعد الثلاثۃ فإنہم أجمعوا علی أن علیا أفضل الخلق بعد الثلاثۃ ودل ہذا الإجماع علی أن حدیث ابن عمر غلط وإن کان السند إلیہ صحیحا ۴۸؎ ’’یہ حدیث اہل سنت کے اجماعی موقف کے خلاف ہے کہ اصحاب ثلاثہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو صحابہ میں چوتھا درجہ حاصل تھا۔ اس لیے باوجود اس روایت کی سند ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بالکل ثابت ہے لیکن اس میں پیش کی گئی بات اجماع کے مخالف ہونے کی وجہ سے غلط ہے۔‘‘ ٭ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: خلق اللّٰہ آدم وطولہ ستون ذراعا فلم یزل الخلق ینقص حتی الآن ۴۹؎ ’’ اللہ تعالیٰ نے جب آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو ان کا قد ساٹھ ہاتھ لمبا تھا۔اس کے بعد سے لے کر اب تک مخلوق کا قد برابر چھوٹا ہوتا چلا آرہا ہے۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م۲۵۸ھ) فرماتے ہیں : ویشکل علی ہذا ما یوجد الآن من آثار الأمم السالفۃ کدیار ثمود فإن مساکنہم تدل علی أن قامتہم لم تکن مفرطۃ الطول علی حسب ما یقتضیہ الترتیب السابق ولکن شک أن عہدہم قدیم وأن الزمان الذی بینہم وبین آدم دون الزمان الذی بینہم،وبین أول ہذہ الأمۃ ولم یظہر لی إلی الآن ما یزیل ہذا الإشکال۔۵۰؎ ’’اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ گزشتہ اقوام، مثلا قوم ثمود کے آثار اور بستیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے قد ہمارے قد کے بالمقابل اتنے لمبے نہیں تھے جتناکہ حدیث میں بیان کردہ ترتیب تقاضا کرتی ہے۔ ان کا زمانہ بھی بہت قدیم ہے۔ ان کے اور آدم علیہ السلام کے مابین زمانی فاصلہ اس سے کم ہے، جو ان کے اور اس امت کے دور اول کے مابین ہے۔ تاحال میرے سامنے کوئی ایسی توجیہہ نہیں آئی جس سے یہ اشکال زائل ہوجائے۔‘‘ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (م۱۳۵۲ھ)فرماتے ہیں کہ علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ (م۸۰۸ھ)نے بھی اس روایت کو اس بنا پر رد کیا |