Maktaba Wahhabi

411 - 432
ہے۔۵۱؎ ٭ سنن نسائی میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن الشمس والقمر لا ینکسفان لموت أحد ولا لحیاتہ ولکنہما آیتان من آیات اللّٰہ عز وجل۔ إن اللّٰہ عز وجل إذا بدأ لشیٔ من خلقہ خشع لہ۵۲؎ ’’ سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ۔ گرہن لگنے کی وجہ یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں سے کسی چیز پر تجلی ڈالتے ہیں تو وہ خشوع وعجز کا اظہار کرتی ہے۔‘‘ اِمام ابن حجر رحمہ اللہ (م۸۵۲ھ) اس روایت کے بارے میں اِمام غزالی رحمہ اللہ (م۵۰۵ھ) کا تبصرہ نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : إنہا لم تثبت فیجب تکذیب ناقلہا قال ولو صحت لکان تأویلہا أہون من مکابرۃ أمور قطعیۃ لا تصادم أصلا من أصول الشریعۃ ۵۳؎ ’’ یہ بات ثابت نہیں ، لہٰذا اس کے راوی کی تکذیب واجب ہے۔ اگر روایت صحیح بھی ہو تواس کی تاویل کرنا ان قطعی امور کے بے جا انکار سے بہتر ہے، جو شریعت کی کسی اصل سے نہیں ٹکراتے۔‘‘ ٭ سنن ابی داؤد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بکریوں کی زکاۃ کے بارے میں روایت ہے کہ اگر بکریوں کی تعداد پچیس ہو تو ان میں سے پانچ بکریاں زکوۃ کے طور پر وصول کی جائیں ۔ چونکہ جانوروں کی زکوۃ کے معروف نصاب کے حوالے سے پچیس بکریوں میں پانچ بکریوں کی زکاۃ بہت زیادہ ہے۔ اِمام ابوعبید قاسم بن سلام رحمہ اللہ (م۲۲۴ھ) اِمام سفیان ثوری رحمہ اللہ (م۱۶۱ھ) کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں : کان أفقہ من أن یقول ذلک ۵۴؎ ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسے فقیہ اور مجتہد سے ایسی کمزور بات منقول ہونا بہت بعید ہے۔‘‘ ٭ جامع ترمذی میں واقعہ افک کی روایت میں ذکر ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر الزام لگانے والوں میں سے حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ بھی تھے، اس لیے ان پر بھی حد قذف جاری ہوئی تھی۔ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (م۱۳۵۲ھ)فرماتے ہیں کہ حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے اشعار میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ وہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عفت وعصمت کا دفاع کرنے والے تھے۔ والعبرۃ عندی بأخذ قول الحسان نفسہ ولا عبرۃ بما یذاع بین الناس ویشاع فإن حال الخبط فی الأخبار معلوم وبالجملۃ نسبۃ القذف إلیہ عندی خلاف التحقیق وکذا من جعلہ مصداقا لقولہ والذی تولی کبرہ باطل عندی ۵۵؎ ’’ میرے نزدیک خود حضرت حسان کے بیان پر اعتماد کرنا چاہیے، لوگوں کے مابین جو باتیں مشہور ہو جاتی ہیں ان کا کوئی اعتبار نہیں ، کیونکہ روایات میں واقع ہونے والی گڑ بڑ کا حال معلوم ہے۔ خلاصہ یہ ہے حضرت حسان کی طرف قذف کی نسبت میرے نزدیک خلاف تحقیق ہے۔ اسی طرح ان کو والذی تولی کبرہ کا مصداق قرار دینا میرے نزدیک بالکل بے بنیاد ہے۔‘‘ ٭ صحیح مسلم کی مختلف روایات میں صلوۃ کسوف کے بارے میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم کا عمل یہ ذکر ہوا ہے کہ آپ نے صلوۃ الکسوف میں دو یا تین یا چار رکوع فرمائے ۔ ان روایات کو اِمام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (م۷۲۸ھ) ضعیف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں: وأربع رکوعات أنہ إنما صلی ذلک یوم مات إبراہیم ومعلوم أن إبراہیم لم یمت مرتین ولا کان لہ
Flag Counter