Maktaba Wahhabi

409 - 432
اس روایت کے بارے میں اِمام رازی رحمہ اللہ (م ۶۰۶ ھ) نے اپنی تفسیر میں اس روایت کی تردید کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لأن یضاف الکذب إلی رواتہ أولی من أن یضاف إلی الأنبیاء علیہم الصلوۃ والسلام ۳۸؎ ’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف ان تین جھوٹوں کی نسبت کرنے سے بہتر ہے کہ اس کی نسبت روایت کے راویوں کی طرف کی جائے۔‘‘ ٭ مسند احمد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: إن یأجوج ومأجوج لیحفرون من السد کل یوم حتی إذا کادوا یرون شعاع الشمس قال الذی علیہم ارجعوا فتستحفرونہ غدا فیعودون إلیہ کأشد ما کان حتی إذا بلغت مدتہم وأراد اللّٰہ عز وجلّ أن یبعثہم علی الناس حفروا حتی إذا کادو یرون شعاع الشمس قال الذی علیہم ارجعوا فتستحفرونہ غدا إن شاء اللّٰہ فیستثنی فیعودون إلیہ وہو کہیئتہ حین ترکوہ فیحفرونہ ویخرجون علی الناس ۳۹؎ ’’یا جوج وماجوج ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار کو روزانہ کھودتے ہیں ، یہاں تک کہ جب سراخ میں سے سورج کی کرنیں اندر آنے لگتی ہیں تو ان کا نگران کہتا ہے کہ اب واپس لوٹ چلو، کل ہم اس دیوار کھود ڈالیں گے۔ لیکن اگلے دن وہ آتے ہیں تودیوار دوبارہ نہایت مضبوطی بند ہوچکی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہے گا۔ یہاں تک کہ جب ان کی قید کی مدت پوری ہوجائے گی اور اللہ تعالیٰ ان کو لوگوں پر مسلط کرنا چاہیں گے تو ایک دن وہ دیوار کو کھود دیں اور جب سورج کی کرنیں اندر آنے لگیں گی تو نگران کہے گا کہ اب واپس چلو! ان شاء اللہ ہم کل اس دیوار کو کھود لیں گے۔ ان شاء اللہ کہنے کی وجہ سے جب وہ اگلے دن آئیں گے تو دیوار اسی حالت پر ہوگی جس پر وہ کل اسے چھوڑ کر گئے تھے۔ چنانچہ وہ اس کو کھود کر باہر نکل آئیں گے۔‘‘ یہ روایت بظاہر قرآن مجید کی اس آیت کے خلاف ہے: ﴿فَمَا اسْطَاعُوْا أَنْ یَّظْہَرُوْہُ وَمَا اسْتَطَاعُوْا لَہُ نَقْبًا﴾ ۴۰؎ ’’ نہ وہ اس دیوار کو سر کر سکے اور نہ اس میں سراخ ہی کرسکے۔‘‘ چنانچہ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (م ۷۷۴ ھ) فرماتے ہیں : إسنا دہ جید قوی ولکن متنہ فی رفعہ نکارۃ، لأن ظاہر الآیۃ یقتضی أنہم لم یتمکنوا من ارتقائہ ولا من نقبہ لأحکام بنائہ وصلابتہ وشدتہ ولکن ہذا قد روی عن کعب الأحبار ولعل أبا ہریرۃ تلقاہ من کعب فإنہ کان کثیر ما کان یجالسہ ویحدثہ فحدث بہ أبو ہریرۃ فتوہم بعض الرواۃ أنہ مرفوع فرفعہ ۴۱؎ ٭ صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا: خلق اللّٰہ التربۃ یوم السبت وخلق فیہا الجبال یوم الأحد وخلق الشجر یوم الإثنین وخلق المکروہ یوم الثلثاء وخلق النور یوم الأربعاء وبث فیہا الدواب یوم الخمیس وخلق آدم علیہ السلام بعد العصر من یوم الجمعۃ فی آخر الخلق ۴۲؎ ’’ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ کے دن زمین کی سطح کو پیدا کیا، اتوار کے دن پہاڑوں کو، پیر کے دن درختوں کو، منگل کے دن بری چیزوں کو، بدھ کے دن روشنی کو، جمعرات کے دن زمین میں چوپاہوں کو پھیلایا اور سب سے آخر میں جمعہ کے دن عصر کے بعد آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔‘‘ اس روایت کو جلیل القدر محدثین رحمہم اللہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ علامہ مناوی رحمہ اللہ (م ۱۰۳۱ ھ)فرماتے ہیں : قال الزرکشی: أخرجہ مسلم وہو من غرائبہ وقد تکلم فیہ ابن المدینی والبخاری وغیرہما من الحفاظ وجعلوہ من کلام کعب الأحبار وأن أبا ہریرۃ إنما سمعہ منہ لکن اشتبہ علی بعض الرواۃ فجعلہ مرفوعا ۴۳؎ ’’اِمام زرکشی رحمہ اللہ (م ۷۹۴ ھ) کہتے ہیں کہ یہ روایت اِمام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ ھ) کی نقل کردہ غریب روایات میں سے ہے۔ اس
Flag Counter