Maktaba Wahhabi

408 - 432
اس قسم کے تمام اقوال راوی پر جرح وتعدیل کے ضمن میں نہیں آتے کیونکہ راوی کے بارے میں اس قسم کا فیصلہ اصل کے اعتبار سے نہیں بلکہ تعارض کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راوی کی طرف ان امور کے قبیل سے اس قسم کی نسبت سے محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں بالاتفاق راوی ضعیف نہیں ہوتا بلکہ روایت پر ضعف(یعنی ضعف لغوی، جسے اصطلاحات محدثین میں توقف اورمرجوح یا شاذ یا معلول وغیرہ کے لفظ سے بیان کیا جاتا ہے) کا فیصلہ کیا جاتا ہے اوراگر کوئی دوسرا عالم اس تعارض کو ویسے ہی حل کردے تو پھر راوی کی طرف ایسی نسبت ازخود اضافی قرار پاجاتی ہے۔ مشکل الآثار یا مختلف الحدیث کے موضوع پر جن محدثین عظام رحمہم اللہ نے کام کیا ہے ان میں سے کئی محدثین کرام کا دعوی ہے کہ ذخیرہ حدیث میں کوئی حدیث بھی دوسری حدیث سے متعارض نہیں ۔ جیساکہ اِمام احمد رحمہ اللہ (م ۲۴۱ ھ) اور اِمام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م ۳۱۱ھ) وغیرہ جیسے آئمہ کا عویٰ ہے کہ ایک بھی ایسی صحیح روایت پیش نہیں کی جاسکتی کہ جو دوسری صحیح روایت سے ٹکراتی ہو، اگر کسی کو کسی روایت کے بارے میں اشکال ہے تو لاؤ اسے ہم جمع کرکے دکھاتے ہیں ۔۳۶؎ البتہ اصول یہ ہے کہ اگرکوئی دو روایات کو محدثین عظام رحمہم اللہ جمع نہ بھی کرپائیں تووہ انہیں ضعیف کہے بغیر (توقف فرماتے ہوئے) دیگر علماء کے لئے میدان چھوڑ دیتے ہیں کہ وہ ان روایات کا کوئی حلپیش کر دیں ۔ واضح رہے کہ بعض محدثین رحمہم اللہ مختلف صحیح روایات میں جمع وتوفیق کے جو متعدد طریقے اختیار کرتے ہیں یا ایک محدث ترجیح دیتا ہے ، لیکن دوسرا جمع کردیتا ہے، تو یہ ساری بحث تحقیق حدیث کے موضوع سے خارج ہے اور تاویل حدیث کا موضوع ہے۔چنانچہ ترجیح وغیرہ کی مباحث کے باوجود روایت صحیح رہتی ہے، ضعیف نہیں ہوجاتی۔ چنانچہ یہ سارے نکات بعد از وقوع کے قبیل کی چیزیں ہیں ، شریعت کی نصوص نہیں ! اس لیے فہم وتدبر سے متعلقہ چیزوں کو شرعی نص سمجھتے ہوئے ان کی بنیاد پر شرع کو ضعیف ہر گز نہیں کہا جاسکتا ہے۔ 3۔ باب دوم کی فصل ثانی میں گذر چکا ہے کہ جب روایات میں تعارض ہو یا جس روایت میں اشکال ہے اسے نقل کرنے میں راوی متفرد ہو تو اس قسم کی احادیث میں اگر اشکال حل نہ ہوسکے تو محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں ایسی صورت’ علل الحدیث ‘ کی بحث سے تعلق رکھتی ہے، جس میں وہ مخفی اور قادح عیوب کی بنا پر اپنے فنی ذوق کی روشنی میں وہم کی نسبت روایت کے کسی راوی کی طرف کردیتے ہیں ۔ چنانچہ اُن تمام اقوال، جن کو منکرین حدیث ’درایت‘ کا نام لے کر اپنے موقف کے اثبات میں پیش کرتے ہیں ، وہ ’نقد روایت کے درایتی معیار‘ کے بجائے محدثین کرام کے ہاں علل الحدیث کی بحث ہے، جس میں حدیث پر حکم لگانے میں محدثین کرام کا کیا منہج ہے؟ دوسرے باب میں تفصیلاً گذر چکا ہے۔ ذیل میں چند امثلہ مزید نقل کی جارہی ہیں جن کا تعلق محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں علل الحدیث کی بحث سے ہے اور انہوں نے اپنے اپنے اعتبار سے کسی اشکال کو اٹھاکر روایت میں ’علت‘ کی نشاندہی کی ہے، جبکہ اس کے بالمقابل ’اہل درایت‘ نے ان اقوال کو پیش کرکے یہ تاثر دیا ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ ان کے خود ساختہ’ تصور درایت‘ کے مؤید ہیں ۔ ٭ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا: لم یکذب إبراہیم علیہ السلام إلا ثلاث کذبات ۳۷؎ ’’ ابراہیم علیہ السلام نے پوری زندگی میں صرف تین جھوٹ بولے ہیں ۔‘‘
Flag Counter