Maktaba Wahhabi

407 - 432
علم کے اشکالات کو اس لئے ذکر کر رہے ہیں تاکہ ان کے جوابات دے سکیں اور انہوں نے ہر اعتراض کا جواب دے کر اس کی تردید بھی کردی ہے جس کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ۔ البتہ ان کی وہ عبارت جو اس حدیث پر اعتراضات کرنے والوں نے اوپر ذکر کی ہے ، اس کا تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے مکمل طور پر فتح الباری سے نقل کردیا جائے۔فتح الباری میں حافظ صاحب رحمہ اللہ کے الفاظ یوں نقل ہیں : أقدم جماعۃ من الأکابر علی الطعن فی صحۃ ھذا الحدیث مع کثرۃ طرقہ و اتفاق الشیخین و سائر الذین خرجوا الصحیح علی تصحیحہٖ و ذلک ینادی علی منکری صحتہ بعدم معرفۃ الحدیث و قلۃ الاطلاع علی طرقہ قال ابن المنیر:مفہوم الایۃ زلت فیہ الأقدام ۳۵؎ ’’ یہ حدیث بہت سی اسانید سے مروی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ (م ۲۵۶ ھ) اور امام مسلم رحمہ اللہ (م ۲۶۱ ھ) نیز ان کے طریقہ تصحیح پر صحیح احادیث نقل کرنے والے علماء نے بھی اس کی صحت پر اتفاق کیا ہے اس کے باوجود اکابر اہل علم کی ایک جماعت نے اس حدیث کی صحت کو ہدف طعن بنایا ہے اور یہ چیز ان کی فن حدیث میں عدم مہارت اور اس کی کثرت اسانید سے ناواقفیت کی دلیل ہے اور ابن منیر رحمہ اللہ نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آیت قرآنی کا مفہوم سمجھنے میں اکثر علماء کے قدم پھیل گئے ہیں ۔‘‘ آپ غور کریں کہ مذکرہ عبارت میں ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) اعتراض کرنے والے علماء کے ساتھ کھڑے ہیں یا ان کامبلغ علم بیان فرما رہے ہیں ۔ اعتراض کرنے والوں نے مکمل عبارت کو یوں نقل کیا ہے کہ گویا ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) اعتراض کرنے والے علماء کے ہم نوا ہیں ، جبکہ درمیان عبارت میں کچھ فقرے چھوڑ دیے، جن میں درحقیقت ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے ان اہل علم کے مبلغ علم پر تبصرہ فرمایا ہے۔ اس قسم کی بد نیتی کی امثلہ علمائے حدیث کے ہاں ہرگز نہیں ملتیں ، جس قسم کی مثالیں اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے منکرین حدیث پیش کرتے ہیں ۔ بعض فوائد 1۔ اوپر ذکر کی گئی تمام احادیث کے بارے میں جو چیز دوران تحقیق سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے پیش کیے جانے والے مذکورہ تمام اقوال کے نقل کرنے میں ’اہل درایت‘ کی علمی دیانت کا عالم یہ ہے کہ ان اقوال کو انہوں نے جن مصادر کے حوالے سے پیش کیا ہے، وہاں ان اقوال کو مؤلفین لائے ہی اس لیے تھے کہ ان کا حل نقل کریں ، لیکن ان لوگوں نے اپنے مطلب کی بات وہاں سے اخذ کرلی اور وہ جوابات چھوڑ دیے، جو وہاں مؤلفین نے ان اقوال کو ذکر کرکے تفصیلا ذکر کیے تھے۔ 2۔ صحیحین وغیرہ کی مذکورہ روایات میں سے اکثر میں عموما نظر آرہا ہے کہ جب بعض اہل علم دومتعارض صحیح نصوص میں جمع نہیں کرپاتے، تو وہ اپنے فہم کے اعتبار سے ترجیح کے طرق پر چلتے ہوئے درج ذیل الفاظ میں تبصرہ کرتے ہیں : 1۔ بسا اوقات کسی بات کو راویوں کا وہم کہہ دیتے ہیں ۔ 2۔ یا کہہ دیتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے جس کی نسبت شریعت کی طرف کرنے کے بجائے راویوں کی طرف کرنی چاہیے۔ 3۔ یا کہتے ہیں کہ یہ روایت متروک یا منکر ہے۔ 4۔ یا کہتے ہیں کہ روایت میں بیان کردہ بات محل اشکال ہے وغیرہ
Flag Counter