اعتراض اس روایت کو کافی محدثین عظام رحمہم اللہ نے تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔ خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)لکھتے ہیں: واشتشکل فہم التخییر من الآیۃ حتی أقدم جماعۃ من الأکابر علی الطعن فی صحۃ ہذا الحدیث مع کثرۃ طرقہ واتفاق الشیخین وسائر الذین خرجوا الصحیح علی تصحیحہ....أنکر القاضی أبو بکر صحۃ ہذا الحدیث وقال: لایجوز أن یقبل ہذا ولا یصح أن الرسول قالہ، انتہی۔ولفظ القاضی أبی بکر الباقلانی فی التقریب: ہذا الحدیث میں أخبار الآحاد التی لا یعلم ثبوتہا۔وقال إمام الحرمین فی مختصرہ: ہذا الحدیث غیر مخرج فی الصحیح وقال فی البرہان: لایصحہ أہل الحدیث وقال الغزالی فی المستصفی: الأظہر أن ہذا الخبر غیر صحیح وقال الداوودی الشارح: ہذا الحدیث غیر محفوظ ۳۴؎ ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آیت سے اختیار کا مفہوم اخذ کرنا محل اشکال سمجھا گیا ہے، اسی لیے اکابر اہل علم کی ایک جماعت نے باوجودیکہ اس سندیں بہت سی ہیں اور شیخین ، نیز صحیح احادیث جمع کرنے والے دوسرے محدثین اس کے صحیح ہونے پر متفق ہیں .... اس حدیث کی صحت پر اعتراض کیا ہے۔ قاضی ابوبکر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح ماننے سے انکار کردیا ہے اور کہا ہے کہ اس کو قبول کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا فرما سکتے ہیں ۔ قاضی ابو بکر رحمہ اللہ تقریب میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث ان اخبار احاد میں سے ہے جن کا ثبوت مشکوک ہے۔ اِمام الحرمین رحمہ اللہ (م ۴۷۸ھ) کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح احادیث کے زمرے میں نہیں آتی اور برہان میں ان کا یہ قول موجود ہے کہ اس کو علمائے حدیث صحیح تسلیم نہیں کرتے۔ اِمام غزالی رحمہ اللہ (م۵۰۵ھ) المستصفی میں لکھتے ہیں کہ اس کا غیر صحیح ہونا بالکل واضح ہے۔ داوودی رحمہ اللہ (م ۴۰۲ ھ) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث محفوظ نہیں ہے۔‘‘ جواب قرآنی آیت:﴿ اِسْتَغْفِرْلَہُمْ أَوْلاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ ﴾ پر غور کیاجائے تو اس میں لفظ أو استعمال ہوا ہے جو تخییر کے لئے ہوتا ہے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے یہ الفاظ بھی اس پر شاہد ہیں:((إنما خیّرنی اللّٰہ )) کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس کے لئے استغفار کرنے، نہ کرنے میں اختیار دیا ہے یعنی ابھی تک منع نہیں کیا، اس پر یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آیت سے اختیار کا مفہوم اخذ کرنے میں اشکال ہے۔‘‘ آپ کے مقام نبوت پر اعتراض ہے جو کسی امتی کو زیب نہیں دیتا۔ ایک اشکال اور اس کا جواب حدیث نبویہ کو عقلی اصولوں سے رد کردینے والوں کی عجیب نفسیات ہیں کہ اگر کوئی محدث اہل علم میں سے کسی کا اشکال اس لئے نقل کرتا ہے تاکہ وہ ا س کا جواب دے۔ تو ان بے چاروں کو اشکال تو نظر آجاتا ہے جو صحیح حدیث پر کیا گیاہے لیکن اس کے ساتھ اس اشکال کا جواب نقل کرنے سے ان کا قلم قاصر رہتا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)کو ہی لے لیجئے جوحدیث نبوی کے بہت بڑے خادم ہیں ۔ وہ حدیث پر اپنی طرف سے کوئی اعتراض نہیں کرتے، ہاں دیگر حضرات کے اٹھائے ہوئے اشکالات کے دلائل کے ساتھ جوابات ضرور دیتے ہیں ۔ زیر نظر حدیث میں بھی انہوں نے بعض اہل علم کے اشکالات کو اس لئے ذکر کیا ہے تاکہ ان کی تردید کریں ، لیکن نام نہاد درایت کے دعویداروں نے ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) کو بھی منکرین حدیث کی صف میں لاکھڑا کیا اور کہا کہ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ) لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آیت سے اختیار کا مفہوم اخذ کرنا محل اشکال سمجھا گیا ہے، حالانکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)دیگر اہل |