کیونکہ معراج کی رات آخری دورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ تو فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے ایک نیکی کرنے پر دس نیکیاں دینے کا وعدہ فرمایا ہے لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اب اپنے حکم میں کسی قسم کی ترمیم یا تبدیلی کرانے سے روک دیا ہے۔ دیکھئے آخری بار آپ نے موسیٰ علیہ السلام کو ﴿ لاَ یُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَی﴾ کے بارے میں بتایا نہیں تھا اور نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ارشاد سنا تھا اس لئے دوبارہ جانے کامشورہ دیا تھا۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں: فقال الجیار یا محمدقال لبیک وسعدیک قال لایبدل القول لدی کما فرضت علیک فی ام الکتب قال فکل حسنۃ بعشر امثالھا فہی خمسون فی ام الکتاب وھی خمس علیک فرجع الی موسیٰ فقال: کیف فعلت فقال خفف عنا أعطانا بکل حسنۃ عشر أمثالھا قال موسیٰ: قدواللّٰہ راودت بنی اسرائیل علی أدنی من ذالک فترکوہ ارجع الی ربک فلیخفف عنک أیضا قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم یا موسیٰ قد واللّٰہ استحییت من ربی مما اختلفت الیہ قال....فاھبط باسم اللّٰہ ۳۱؎ ’’ارشاد ہوا اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں اور حکم کی بجاآوری کے لئے مستعد ہوں ، فرمایا میری بات نہیں بدلے گی، جیسا کہ لوح محفوظ میں آپ پر فرض کردی گئی تھی اور ہر نیکی کا ثواب دس گناہ ہوگا۔ لوح محفوظ کے مطابق پچاس نمازیں آپ پرپانچ ہوئیں ، اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف واپس آئے ، انہوں نے پوچھا کیوں کیاہوا؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہم پربہت تخفیف فرما دی، ہر نیکی کے بدلے دس نیکیوں کا ثواب عطا فرمایاہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے، اللہ کی قسم میں نے بنی اسرائیل سے پانچ سے بھی کم نمازیں پڑھنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن انہوں نے چھوڑ دیا ، لہٰذا پھر جاؤ اور پروردگار سے تخفیف کراؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم میں کئی بار اپنے رب کے پاس جاچکا ہوں اب جاتے مجھے حیا آتی ہے، فرمایا پھر اللہ کا نام لے کر زمین پر اترو۔‘‘ ۳۲؎ مذکورہ بالا روایت کے الفاظ سے یہ بات بالکل واضح ہو رہی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے آخری بار موسی علیہ السلام کو ﴿ مَا یُبَدَّلُ الْقُوْلُ لَدَیَّ ﴾ کے بارے میں بتا یا ہی نہیں ،چنانچہ محدث داودی رحمہ اللہ (م ۴۰۲ ھ)کا یہ دعوی بالکل بے جا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے موسی علیہ السلام کو ﴿ مَا یُبَدَّلُ الْقُوْلُ لَدَیَّ ﴾ والی آیت کریمہ سنائی اور جہاں تک محدث داوودی کے دوسرے دعوی کا تعلق ہے کہ موسی علیہ السلام کلام الٰہی سننے کے بعد دوبارہ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے کا کہہ ہی نہیں سکتے، یہ دعوی بالکل بجا ہے کیونکہ جب موسی علیہ السلام نے فرمان الٰہی سنا ہی نہیں تو اس کی خلاف ورزی کیونکر کر سکتے ہیں ،کیونکہ پہلا دعوی ہی ثابت نہیں ہوسکا۔ جب حقیقت حال یہ ہے تو اس روایت سے یہ دلیل کیسے تراشی جاسکتی ہے اور بخاری جیسی اصح الکتب بعد کتاب اللہ کی روایات کو مشکوک کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ 9۔ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کہے کہ جب عبد اللہ بن أبی منافق کا انتقال ہوا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کفن دینے کے لئے اپنی قمیص دی، پھر اس کا جنازہ پڑھانے کے لئے اٹھے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تصل علیہ وہو منافق وقد نہاک اللّٰہ أن تستغفر لہم۔قال رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم :إنما خیرنی اللّٰہ فقال: ﴿اسْتَغْفِرْلَہُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْلَہُمْ سَبْعِینَ مَرَّۃً فَلَن یَغْفِرَ اللّٰہ لَہُمْ﴾ ،فقال: سأزیدہ علی سبعین ۳۳؎ ’’کیا آپ منافق کا جنازہ پڑھائیں گے، آپ نے فرمایا مجھے اللہ نے اختیار دیا ہے اس لئے میں ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کروں گاتاکہ اس کی مغفرت ہوجائے اس کے بعد آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔‘‘ |