اس سے قبل ایک دفعہ خود حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے بھی اپنی اسی بہن سے نکاح کرنے کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا تھا توآپ نے فرمایا: ایک آدمی کے نکاح میں دو سگی بہنیں جمع نہیں رہ سکتیں ، اسی طرح ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزہ سے نکاح کرنے کا اظہار کیا تھا، لیکن راوی نے غلطی سے عزہ کی بجائے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہہ دیا ہے۔ 2۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) نے اس سلسلہ میں ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کے اشکال کا جواب دیتے ہوئے ایک بات کی مزید وضاحت فرمائی ہے: ’’ عزہ کی کنیت بھی اپنی بہن کی کنیت پر ام حبیبہ ہی تھی، لہٰذا عزہ کوام حبیبہ رضی اللہ عنہا کہنے میں بھی راوی نے کوئی غلطی نہیں کی۔ ‘‘ ۲۸؎ المختصر ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) اور اِمام صنعانی رحمہ اللہ (م ۱۱۸۲ ھ) کی توضیحات بالکل معقول معلوم ہوتی ہیں جوکہ مذکورہ حدیث پرابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کی طرف سے پیش کردہ اشکال کا کافی شافی جواب ہیں ۔ ایک اشکال اور اس کا جواب اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) فرماتے ہیں کہ میری ذکردہ توجیہ کے باوجود یہاں ایک اور اشکال باقی رہ جاتا ہے، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے ہر مطالبے کے جواب میں ’’نعم‘‘ کہہ کر اسے قبول کیا تھا، حالانکہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں ہوتے ہوئے آپ اس کی بہن عزہ سے نکاح کی پیش کش کو قبول نہیں کرسکتے تھے، کیونکہ دو بہنوں کا ایک آدمی کے نکاح میں جمع ہونا حرام ہے۔ اس کا جواب اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) نے ہی یوں دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے تمام مطالبات نہیں بلکہ ان میں سے بعض قبول کئے تھے جن کا قبول کرنا ممکن تھا یعنی ابوسفیان رضی اللہ عنہ کے کہنے پر ان کے بیٹے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو کاتب وحی بنا لیا تھا، لیکن عزہ سے نکاح کرنا چونکہ ناممکن تھا ا س لئے آپ نے اسے قبول نہیں کیا۔۲۹؎ 8۔ صحیح بخاری میں واقعہ معراج کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے پر نمازوں میں تخفیف کے لئے بارہا اللہ تعالیٰ کے پاس جاتے رہے، آخری مرتبہ جب آپ واپس ہوئے اور موسیٰ علیہ السلام نے پھر واپس جانے کو کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد سنایا کہ ﴿ مَا یُبَدَّلُ الْقُوْلُ لَدَیَّ ﴾ یعنی ’’اس حکم میں مزیدکوئی تبدیلی نہیں ہوگی‘‘، لیکن موسیٰ علیہ السلام نے پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ جانے کے لئے کہا۔ اعتراض محدث داؤدی رحمہ اللہ (م ۴۰۲ ھ)فرماتے ہیں : ’’ یہ بات درست نہیں کیونکہ باقی تمام روایات اس کے برخلاف بیان کرتی ہیں نیز موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا ارشاد سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ جانے کانہیں کہہ سکتے۔‘‘ ۳۰؎ جواب کلام خواہ نبی کا ہو یا غیر نبی کا، اس کو سیاق وسباق سے علیحدہ کرکے جو اشکالات پیدا ہوتے ہیں ، بالکل وہی اشکالات اور اعتراضات اس وقت در آتے ہیں کہ جب مخصوص فکر وخیال کو پیش نگاہ رکھ کر شریعت اسلامیہ کا مطالعہ کیا جائے۔ ہمارے خیال میں جس حدیث کے الفاظ پریہ اعتراض کیا گیا ہے، اگر اس پر غور کرلیا جاتا تو رواۃ حدیث کوغلط کہنے کی بجائے امام داؤدی رحمہ اللہ (م۴۰۲ ھ) کی غلطی واضح ہوجاتی |