روایت میں مذکورہ بات درست نہیں ہوسکتی، کیونکہ اس سے واقعہ معراج کے بعثت نبوی سے پہلے ظہور پذیر ہونے کا اشارہ ملتا ہے اور یہ بات اہل علم کے اتفاق کے خلاف ہے۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ اہل علم کا اتفاق تو اس بات پر ہے کہ معراج کا نبوت کے بعد کا ہے، جبکہ فرشتوں کی آمد واقعہ معراج سے قبل ہوئی ہے کہ نہیں ؟ تو اس سلسلہ میں انہیں کوئی انکار نہیں ۔ 7۔ صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی دختر ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کی پیش کش کی۔ ۲۶؎ اعتراض اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) فرماتے ہیں : ’’ تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح فتح مکہ سے بہت عرصہ پہلے ہوچکا تھا، جبکہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ ابھی ایمان نہیں لائے تھے لہٰذا اس روایت کو قبول نہیں کیا جاسکتا۔‘‘ ۲۷؎ جواب اللہ تعالیٰ نے چونکہ تمام انسانوں کو مختلف ذہنی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ان کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی حدیث سے مسائل اخذ کرنے یا ان کا حقیقی مصداق کرنے میں بسا اوقات اختلاف فکر رونما ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال میں ظاہر بات ہے کہ کسی دلیل کی بنا پر جمہور علماء کی رائے ہی اختیار کی جائے گی اور دوسری رائے کو دلیل ہی کی بنیاد پر شاذ قرار دے کر چھوڑ دیا جائے گا۔ ہمارے خیال میں اگر ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) نے بعض روایات پر اپنے بعض اشکالات کو پیش کیا ہے تویہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہوسکتی ہے، کیونکہ وہ معصوم عن الخطا تو نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر دیگر آئمہ کی تنقید موجود ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ آئمہ کے شاذ اقوال کی بنیاد پر تحقیق روایت میں سند کو چھوڑ کر متن کے بل بوتے پر داد تحقیق دینے کا دعوی کرتے ہیں ، ان کی بات عقلا محال ہے، کیونکہ فقہاء کے مختلف اقوال بھی ہماری طرف روایت ہی کی جہت سے منقول ہوئے ہیں ۔ واقعہ کا پس منظر اس واقعہ کا پس منظر سامنے رہے تو یہ بات بھی واضح ہوجائے گی کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی عزہ، جس کی کنیت ام حبیبہ تھی، سے نکاح کرنے کی آپ صلی اللہ عليہ وسلم کو پیش کیوں کی تھی؟ اس سلسلہ میں صحیح مسلم کی ہی ایک دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے باقاعدہ وضاحت موجود ہے کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے اسلام قبول کرنے کے باوجود مسلمان ان کی طرف توجہ کرتے اور نہ ان کے ساتھ بیٹھتے۔انہوں نے یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے یہ درخواست کی کہ ان کی بیٹی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ عليہ وسلم نکاح فرمالیں ۔ اس تناظر میں ہم ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کے اس شاذ قول کی تردید میں ذیل میں بعض آئمہ سلف کے اقوال نقل کر رہے ہیں: 1۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کی یہ تنقید علامہ صنعانی رحمہ اللہ (م۱۱۸۲ ھ) کی توضیح الافکارکے ص ۱۲۸ پر موجود ہے، مگر علامہ صنعانی رحمہ اللہ (م ۱۱۸۲ ھ) نے اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کے اعتراض کو نقل کرنے کے متصل بعد خود ہی ابن حزم رحمہ اللہ (م۴۵۶ ھ) کی طرف سے پیش کیے گئے اشکال کے مختلف جوابات ذکر کئے ہیں ۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے رشتے کی بابت بات نہیں کی تھی بلکہ ان کی بہن عزہ رضی اللہ عنہا سے رشتے کی پیش کش کی تھی، بلکہ |