’’جبریل علیہ السلام کی معیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم آسمان دنیا کے پاس پہنچے، جبریل علیہ السلام نے دروازے پر دستک دی، آسمان کے فرشتوں نے پوچھا کون ہے؟ کہا کہ میں جبریل علیہ السلام ہوں ، کہا گیا کہ آپ کے ساتھ کون ہے؟ کہا کہ میرے ساتھ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، آسمان کے دربان فرشتے نے پوچھا کہ کیا ان کی بعثت ہوچکی ہے۔یعنی منصب نبوت پر فائز ہوگئے ہیں یا نہیں ، کہاہاں ، ان کی بعثت ہوچکی ہے اور سب فرشتوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش آمدید کہا۔‘‘ اپنے موقف کے حق میں اٹھائے گئے مختلف اشکالات کو بلا تحقیق نقل کرتے جانا اور ان اشکالات کی تردید میں اہل تحقیق کے اقوال کو نظر انداز کردینا علم کی خدمت نہیں ہے۔ کم از کم اگر اس حدیث کے الفاظ کو ہی دیکھ لیا جاتا، جس پر اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) نے تنقید کی ہے تو اس حدیث سے ہی اس اشکال کا جواب آسانی سے مل سکتا تھا، کیونکہ اس میں فرشتوں کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کا ذکر دو دفعہ ہے، ایک دفعہ بعثت سے پہلے اور دوسری دفعہ بعثت کے بعد جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج کرایا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ھ) اس حدیث کے تحت اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ولم یعین المدۃ التی بین المجیئین فیحمل علی أن المجئ الثانی کان بعد أن أوحی إلیہ وحینئذ وقع الإسراء والمعراج واذا کان بین المجئین مدۃ فلا فرق فی ذلک بین أن بکون تلک المدۃ لیلۃ واحدۃ أولیال کثیرۃ اوعدۃ سینین وبھذا یرتفع الإشکال عن روایۃ شریک و یحصل بہ الوفاق أن الإسراء کان فی الیقظۃ بعد البعثۃ وقبل الہجرۃ ۲۴؎ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس فرشتوں کی دو دفعہ آمد کے درمیان وقفہ کس قدر تھا اس کی مدت کو معین نہیں کیا گیا، لیکن قیاس کا تقاضا یہی ہے کہ دوسری دفعہ ان کی آمد تب ہی ہوئی تھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول شروع ہوچکا تھا اور اسی وقت اسراء اور معراج کا واقعہ پیش آیا، جبکہ یہ ثابت ہواکہ ان کی آپ کے پاس دو دفعہ آمد کے درمیان وقفہ تھا، تو وہ وقفہ آپ کی بعثت سے پہلے ایک رات کا ہو یا کئی راتوں کا بلکہ کئی سالوں کابھی ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، بایں طور شریک کی اس روایت سے اشکال رفع ہوجاتا ہے اور یہ حدیث دوسری احادیث کے ساتھ مفہوم کے لحاظ سے موافق ہوجاتی ہے کہ اسراء اور معراج آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت سے پہلے اور بعثت کے بعد بیداری میں ہواہے۔‘‘ باقی رہا یہ دعوی کہ یہ حدیث اجماع امت کے خلا ف ہے ، تواس سلسلہ میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں : ویسقط تشنیع الخطابی وابن حزم وغیرھما بأن شریکا خالف الإجماع فی دعواہ أن المعراج کان قبل البعثۃ وباللّٰہ التوفیق ۲۵؎ ’’اور مذکورہ جواب سے اِمام خطابی رحمہ اللہ (م۳۸۸ھ) اور ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کی تنقید بھی رد ہوجاتی ہے، جو کہتے ہیں کہ شریک نے یہ کہہ کر اجماع کی مخالفت کی ہے کہ واقعہ معراج بعثت سے پہلے ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ اس کا جواب ہے جو ہم نے پیش کردیا۔‘‘ اس حوالے سے یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ایک حدیث اگر اجماع امت کے خلاف ہو یا تو وہ منسوخ ہوگی یا مرجوح ۔ اگر نسخ یا ترجیح دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت نہ ہو تو ایسا دعوی اجماع جھوٹ ہے۔ پھر ایک حدیث اجماع کے خلاف ہو توپھر بھی ضعیف کیسے ہوسکتی ہے؟ کیونکہ اجماع فن فقہ کی اصطلاح ہے اور حدیث کی تحقیق، فن ِحدیث کے اصولوں پر کی جاتی ہے۔ خلاصہ کلام ہماری مندرجہ بالا تصریحات سے ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) کے اشکال کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ واقعہ معراج بعثت کے بعد ہوا ہے اور |