جواب جس مقام پر ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے یہ اشکال پیش کیا ہے، اسی جگہ خود ان مختلف صحیح روایات میں موافقت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’’روایت کے الفاظ دیکھیں تو وہاں من زاد علی ہذا أو نقص کے الفاظ موجود ہیں ۔ اس لیے’نقص‘سے مراد تین مرتبہ دھونے کی تعداد میں کمی کرنا مراد نہیں بلکہ ایک مرتبہ وضو کے اعضاء دھونے میں نقص اور کوتاہی کرنا مراد ہے۔ بایں طور کہ وضو کے اعضاء کو ایک بار دھوتے ہوئے مکمل نہ دھویا جائے بلکہ ان کے بعض حصوں میں خشک جگہیں باقی ہوں جو دھونے سے رہ جائیں ، جیساکہ خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر دیکھا کہ وضو کرنے والوں کی ایڑھیوں میں خشک جگہیں پائی جاتی ہیں جو دھونے سے رہ گئی ہیں تو آپ صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمایا:(( ویل للأعقاب من النار)) المختصر سنن ابو داؤد کی روایت میں وارد شدہ ’ نقص‘ کے لفظ سے یہی مراد ہے۔ ۱۸؎ لیکن اگر نقص کے الفاظ سے مراد تین دفعہ سے کم دھونے کانقص مراد لیا جائے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پھر یہ راوی کا ایسا وہم ہے جو بسا اوقات انسان ہونے کے ناطے ہونا ممکن ہے۔ جیساکہ سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ) نے ابن المواق رحمہ اللہ (م ۸۹۷ ھ) سے ایسا ہی نقل کیا ہے۔‘‘ ۱۹؎ اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) کے علاوہ بعض دیگر محدثین نے ایک اور جواب اس اشکال کا دینے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ سنن ابی داؤد کی حدیث مذکور راوی کے وہم پر مشتمل ہے۔جیسا کہ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے اپنے حسب ذیل الفاظ کے ساتھ اس کی وضاحت کی ہے: قال السیوطی قال ابن المواق إن لم یکن اللفظ شکا من الراوی فھو من الأوھام البینۃ التی لاخفاء لہا إذا الوضوء مرۃ و مرتین لا خلاف فی جوازہ والأثار بذلک صحیحۃ والوھم فیہ من أبی عوانۃ ۲۰؎ ’’اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے ابن المواق رحمہ اللہ (م ۸۹۷ ھ) سے نقل کیا ہے کہ یہ ’نقص ‘ کا لفظ اگر راوی کا شک نہیں تو اس کا وہم ہونا بالکل ظاہر ہے کیونکہ ایک یا دو دفعہ اعضاء وضوء کا دھونا جائز ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں اور صحیح احادیث اس بارہ میں ثابت ہیں اور یہ لفظ ’ابوعوانہ‘ کا وہم ہے، جو اس حدیث کے رواۃ میں سے ہے۔‘‘ فائدہ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے ’نقص‘ کے لفظ کو راوی حدیث ابو عوانہ (م ۱۷۶ ھ) کا وہم قرار دیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ مذکورہ حدیث کو ’درایت‘ کے نام پر ہر گز رد نہیں کیا گیا۔ ہمارا تو کہنا ہی یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ نے فن حدیث میں مقرر کردہ اصول حدیث کو سند تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ انہوں نے شاذ اور علت کی ایسی شرائط بھی عائد کردی ہیں ، جن کا تعلق تحقیق متن کے ساتھ ہوتا ہے۔ 6۔ صحیح بخاری میں واقعہ معراج کی ایک روایت میں ہے کہ یہ واقعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہوا۔ اعتراض اِمام ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ ھ) اس پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ اہل علم کا اتفاق ہے کہ واقعہ معراج رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ہوا تھا۔اس لئے روایت میں مذکور بات درست نہیں ہوسکتی۔‘‘ ۲۱؎ |