میں سے جس قبیلہ سے تھا اس قبیلہ کے لوگ خاندانی عصبیت کی بنیاد پردوسرے قبیلہ کے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے مدمقابل آ کھڑے ہوئے اور یوں یہ لڑائی مسلمان قبائل میں بھڑک اٹھی، جن کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیتے مذکورہ آیت نازل ہوئی۔ حدیث بخاری اور تفسیری روایات ایک ہی وقت میں قابل عمل نہیں ہیں کیونکہ دونوں کا محل اور مراد مختلف ہے۔ حدیث بخاری دراصل اس تنازع کی ابتدائی صورت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ جس میں جھگڑے کے فریقین مسلمان اور غیر مسلمان سب تھے، لہٰذا آیت کے شان نزول میں بیان کی جانے والی جمیع تفسیری روایات اپنے محل میں بالکل واضح ہیں ، لیکن ان تفسیری روایات کا مصداق مومنین کی جماعتیں ہیں ، عبداللہ بن ابی کے حاملین نہیں ، کیونکہ عبداللہ بن ابی تو اس وقت صریحا کافر تھا اور اصل جھگڑا دو مسلمان فریقوں میں ہوا تھا، جن کے مابین صلح کروانے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا۔ اب یہ سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ عبد اللہ بن ابی کو کافر کی بجائے مومن کہنے کی کیا وجہ ہے، کیونکہ جب نزاع اور صلح کا تعلق ہی عبداللہ بن ابی سے نہیں ہے تو اس کو آیت میں مذکور لفظ’مومن‘ کا مصداق کیونکر ٹھہرایا جاسکتا ہے؟ ایک اور اشکال اور اس کا جواب حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے یہاں ایک دوسرا اشکال یہ اٹھایا ہے کہ جھگڑے کا یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے آغاز ہجرت کا ہے، جس کے بارے میں آیت:﴿وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا ....﴾ نازل ہوئی ہے اور یہ آیت جس سورت ( حجرات) میں واقع ہے وہ سورت بہت بعد میں نازل ہوئی ہے۔ اس کا جواب ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) ہی کی طرف سے یہ ہے کہ ممکن ہے یہ آیت متقدم النزول ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اسے سورۃ حجرات میں رکھا گیا ہو جو متاخر النزول ہے اور یہ تنجیم القرآن کا تقاضا بھی ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی آیت نازل ہوا کرتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتب ِوحی سے فرماتے کہ اس آیت کو فلاں سورت کے فلاں مقام میں درج کردو۔ 5۔ سنن ابی داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے اپنے اعضاء کو تین تین مرتبہ دھویا اور پھر فرمایا: من زاد علی ھذا أونقص فقدأ ساء وظلم ’’جس نے اس میں کمی وبیشی کی اس نے برا کیا اور ظلم کیا۔‘‘ اعتراض حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) فرماتے ہیں : إسنادہ جید لکن عدہ مسلم فی جملۃ ما أنکر علی عمرو بن شعیب لأن ظاہرہ ذم النقص من الثلاث ۱۷؎ ’’ اس کی سند عمدہ ہے لیکن اِمام مسلم نے اس کو عمرو بن شعیب کے منکرات میں شمار کیا ہے کیونکہ ظاہر کے لحاظ سے یہ روایت تین مرتبہ سے کم دھونے والے کی مذمت کرتی ہے،حالانکہ صحیح روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے۔‘‘ |