یہاں تک جا پہنچی کہ دونوں قومیں ۔ اوس اور خزرج بھی آن پہنچے جن کے درمیان لاٹھیوں سے اور بعض کے بقول ، ہاتھوں ، جوتوں اور کھجور کی چھڑیوں سے لڑائی ہوئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آکر ان کی صلح کرائی اور یہ آیت نازل ہوئی۔‘‘ 2۔ اِمام ابو سعود رحمہ اللہ (م ۹۸۲ ھ)نے اپنی تفسیر میں مذکورہ آیت کا شان نزول بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: والآیۃ نزلت فی قتال حدث بین الاؤس و الخزرج فی عہدہٖ علیہ الصلوٰۃ والسلام ۱۵؎ ’’یہ آیت اس لڑائی سے متعلق نازل ہوئی ہے جونبی علیہ السلام کی زندگی میں اوس و خزرج دو قبیلوں کے درمیان پھوٹ پڑی تھی۔‘‘ 3۔ اِمام قرطبی رحمہ اللہ (م ۶۷۱ ھ) آیت مذکورہ کا پس منظر یوں ذکر فرماتے ہیں: قال مجاھد نزلت فی الاؤس والخزرج، قال مجاھد تقاتل حیان فی الانصار بالعصی والنعال فنزلت الایۃ و مثلہ عن سعید بن جبیرأن الأوس والخزرج کان بینہم علی عہد رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم قتال بالسعف والنعال و نحوہ فأنزل اللّٰہ ھذہ الایۃ فیہم ۱۶؎ ’’مجاہد رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ انصار کے دو قبائل۔ اوس اور خزرج۔ کے درمیان لاٹھیوں اور جوتوں سے لڑائی ہوگئی تھی جس پر یہ آیت نازل ہوئی، ایسے ہی سعید بن جبیر سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اوس اور خزرج کے درمیان جوتوں اور کھجور کی شاخوں وغیرہ کے ساتھ لڑائی ہوگئی تھی اس آیت کو اللہ تعالیٰ نے انہی کے بارے میں نازل فرمایا۔‘‘ کتب تفسیر کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث کے اختصار کی وجہ سے امام ابن بطال رحمہ اللہ (م ۴۴۹ ھ) کو غلطی لگی ہے کیونکہ اول امر میں یہ جھگڑا اگرچہ مسلم اور غیر مسلم کے درمیان واقع ہوا تھا، جیساکہ بخاری کی حدیث سے یہ مترشح ہوتا ہے، لیکن آخر کار یہ تنازع وسیع ہوتا گیا حتی کہ مسلمانوں کے دو قبائل اوس اور خزرج بھی اس کی لپیٹ میں آگئے۔ ایک اہم سوال مندرجہ بالا تفسیری روایات سے ہمیں یہ تو معلوم ہوجاتا ہے کہ آیت کریمہ ﴿وَإِنْ طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا﴾ دو مسلمان او رمومن خاندانوں ، اوس اور خزرج کے بارے میں نازل ہوئی تھی، لیکن یہاں ممکن ہے کہ قاری کے ذہن میں یہ اشکال پیدا ہو کہ صحیح بخاری میں بیان کی جانے والی روایت کا تقاضاہے کہ اس آیت کا شان نزول حامیان عبد اللہ بن ابی اور اصحاب رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم کے مابین ہونے والا جھگڑاتھا۔ اب حدیث بخاری اور تفسیری روایات میں تعارض ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے درمیان راہ تطبیق کیا ہے اور یہ بھی کہ عبداللہ بن ابی تو ابھی اعلانیہ کافر تھا اس کو مسلمان کہنے کی آخر وجہ کیا ہے؟ یعنی اگر شان نزول اوس اور خزرج کا جھگڑا ہے تو عبد اللہ بن ابی والی روایت کا کیا معنی ہے؟ اور اگر شان نزول کا تعلق عبداللہ بن ابی کے ساتھ ہے تو اس کو مومن کہنا کیا معنی رکھتا ہے ، حالانکہ نزول آیت کے وقت وہ صریحا کافر تھا؟ جواب انصار کے ان دونوں قبائل کے درمیان یہ عداوتیں اور لڑائیاں زمانہ جاہلیت سے مسلسل چلی آرہی تھیں اور ان کے اسلام قبول کرنے کے باوجود آغاز ہجرت تک اس کا اثر ان میں باقی تھا، لیکن اس کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم و تربیت سے ایسی قباحتوں کی بیخ کنی ہوگئی اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن گئے تھے۔ مگر اس سے قبل چونکہ ان میں جاہلیت کی عداوتیں اور کدورتیں باقی تھیں جن کی بناء پربعض دفعہ نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی تھی، جیسا کہ اس پربھی جھگڑا مسلمان اور غیر مسلم سے تجاوز کرکے اوس اور خزرج دو قبائل تک پھیل گیا تھا کیونکہ عبد اللہ بن ابی کا تعلق اوس وخزرج |