Maktaba Wahhabi

396 - 432
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ (م ۱۳۵۲ ھ) فرماتے ہیں : ’’ محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)نے بھی اسی بنیاد پر اس روایت کو رد کیا ہے۔‘‘ ۸؎ جواب اَحادیث نبویہ پر اعتراض کرنے والے بھی عجیب ذوق کے مالک ہوتے ہیں ، جہاں انہیں کسی عالم کا قول حدیث نبوی کے خلاف مل جائے تو اسے حجت بناکر حدیث کی تردید میں پیش کردیتے ہیں اور اگر اسی عالم کا قول کسی روایت کی تائید میں ثابت ہو تو اسے نظر انداز کردیتے ہیں ۔ اس سے قبل حدیث ابراہیم علیہ السلام کے خلاف اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ (م ۲۹۵ھ) کے قول کو انہوں نے پیش کرکے انکار حدیث کی دلیل بنا لیا، لیکن اسی عمرو بن میمون رحمہ اللہ (م ۷۴ ھ) کے واقعہ کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ) نے اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ (م۲۹۵ ھ) سے نقل کیا ہے اور انہوں نے اس واقعہ کی تائید کرتے ہوئے اسے تفصیل سے ذکر کیا ہے۔۹؎ لیکن یہاں امام اسماعیلی رحمہ اللہ (م ۲۹۵ ھ)کی تائید کو قصدا نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ حقیقت ِحال بندروں کے رجم کرنے کا واقعہ نہ تو کوئی مرفوع حدیث ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہو اور نہ ہی کسی صحابہ کا قول ہے، بلکہ عمرو بن میمون رحمہ اللہ (م ۷۴ ھ)کا چشم دید واقعہ ہے جو کہ کوفہ کے رہنے والے اور تابعی ہیں ۔ نیز امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ)کی طرف سے پیش کردہ اعتراض حدیث پر اعتراض کے بجائے ایک تابعی کے مشاہدے پر اعتراض ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔ اشکال کا حل 1۔ اِمام ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ)کی طرف سے اسے صحیح تسلیم کرتے ہوئے ایک د وسری تاویل بھی ذکر کی گئی ہے، جسے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے ذکر کیاہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)فرماتے ہیں: فإن کانت الطریق صحیحۃ فلعل ھؤلاء کانوا من الجن لانہم من جملۃ المکلفین۱۰؎ ’’ اس واقعہ کی سند صحیح ہونے کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ (بندروں کی صورت میں ) وہ جن ہوں کیونکہ وہ بھی ہماری طرح مکلف ہیں ۔‘‘ 2۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (م ۸۵۲ ھ)نے ابن عبد البر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ)کی پیش کردہ توجیہ سے اتفاق کرتے ہوئے بڑی تفصیل سے ذکر کیاہے کہ ایسا واقعہ بندروں سے بھی صادر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ اپنی عادتوں میں انسان کے بہت مشابہ ہیں ۔ دوسرے حیوانوں کی بہ نسبت ان میں سمجھ بوجھ زیادہ پائی جاتی ہے۔ جو ہنر چاہیں آپ انہیں سکھا سکتے ہیں اور جو کچھ یہ دیکھتے ہیں اس کی نقل اتار لیتے ہیں ۔ انسان کی طرح یہ ہنستے اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں ۔ انسانوں کی مثل ان کے ہاتھ، انگلیاں ، ناخن اور پورے ہیں ۔ اپنے ہاتھ سے چیزیں پکڑتے اور ہاتھوں سے ہی کھاتے ہیں ۔ دو پاؤں پرچل سکتے ہیں اور ان کا اپنے بچوں کے اٹھانے کا طریقہ بھی انسانوں سے ملتا جلتا ہے۔ دوسرے حیوانات سے کہیں بڑھ کر ان میں غیرت پائی جاتی ہے۔ ۱۱؎ خلاصہ کلام خلاصہ بحث یہ ہے کہ صحیح بخاری میں بیان کردہ عمرو بن مامون رحمہ اللہ (م ۷۴ ھ) کی حدیث خود ان کا چشم دید واقعہ ہے، کوئی مرفوع حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ، جس پر تعجب کا اظہار کیا جاسکے کہ بندر تو ایک غیر مکلف مخلوق ہیں اوران میں زنا ورجم کا سوال پیدا کرنا ہی فضول
Flag Counter