Maktaba Wahhabi

395 - 432
ان کے قائلین کا علمی وسماجی مرتبہ قرار پاتا ہے اور جو شخص جس قدر سماجی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے اسی قدر معاشرتی معاملات میں اس کی بات کو ترجیح دی جائے گی۔ ترجیح اقوال کے سلسلہ میں بالکل یہی اصول علمی دنیا میں بھی کار فرما ہے اور ایک ہی میدان کار سے تعلق رکھنے والے اصحاب علم کو کسی قول یا موقف کی ترجیح میں ان کے علمی تفوق کو کافی اہمیت حاصل ہوتی ہے اور یہ اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے کہ جب مختلف موقف کے قائلین کا میدان کار بھی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہو۔ اس وقت ظاہر بات ہے کہ متعلقہ میدان سے تعلق رکھنے والے صاحب علم کو فوقیت دی جائے گی۔ یہاں جو بات غو رطلب ہے وہ یہ ہے کہ ایک طرف صحیح بخاری کی حدیث ہے، جسے تلقّی بالقبول حاصل ہے اور اس حدیث کے بیان کرنے والے رواۃ ثقہ اور قابل اعتبار ہیں اور دوسری طرف اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ (م ۲۹۵ ھ)ہیں جو اس کی صحت میں اشکال کا شکار ہیں ، تو بلا دلیل اسماعیلی رحمہ اللہ (م ۲۹۵ ھ) کے اشکال کو قبول کرنے کی کوئی معقول وجہ نہیں جس کی بنا پر صحیح بخاری کی حدیث کونظر انداز کیا جاسکے۔ تعارض اور اس کا حل عام منکرین حدیث چونکہ دو عبارتوں میں تعارض کی صورت میں جمع کے بجائے ترجیح کے قائل ہیں ، اس لئے ان کی یہ مجبوری ہے کہ وہ ایک نص کوچھوڑنے کا ارتکاب کرتے ہیں ، حالانکہ ایسے مقام میں جمع و تطبیق مقدم ہے اور وہ یہاں بھی ممکن ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے ہیں کہ اللہ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتے، لیکن انبیاء4 معصوم تو ہوتے ہیں مگر ان کے معصوم ہونے سے کہاں لازم آتا ہے کہ وہ انسانوں کے دائرہ سے خارج ہوجا تے ہیں ۔ اگر کسی حدیث کے ضعف کی بنیاد اسی طرح کی اشیاء بنتی ہیں تو قرآن کریم کی کتنی آیات میں خود رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم سے بھی بشری طور پر اس قسم کی اقوال وافعال اور پھر اللہ کی جوابا تنبیہ کا ذکر ہے جو اللہ کی نظر میں انبیاء کے مقام کے مناسب نہیں ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کا خلاف نہیں کرتے لیکن باپ، بیٹے کا رشتہ بھی نازک ہے، چنانچہ روزِ قیامت باپ کو عذاب میں دیکھ کر صبر نہ کرپائیں گے اور اللہ تعالیٰ سے رحم کی اپیل کریں گے۔ روایات میں صراحت موجود ہے کہ ان کی گذارش پر اللہ تعالیٰ ان کے باپ کی صورت مسخ کرکے ایک جانور بنادیں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اپنی رسوائی کی بات سے بری ہوجائیں گے۔ ۶؎ 3۔ صحیح بخاری کی روایت کے مطابق عمرو بن میمون رحمہ اللہ (م ۷۴ ھ) کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بندر کو دیکھا جس نے زنا کیا تھا اس پر دوسرے بندروں نے جمع ہو کر اس کو سنگسار کیا۔ اعتراض حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) اس حدیث پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فیہا إضافۃ الزنا إلی غیر مکلف وإقامۃ الحدّ علی البہائم وہذا منکر عند أہل العلم۔قال فإن کانت الطریق صحیحۃ فلعل ہولاء کانوا من الجن لأنہم من جملۃ المکلفین ۷؎ ’’اس میں زنا کی نسبت غیر مکلف کی طرف کی گئی ہے اور جانوروں پر حد لگانے کا ذکر ہے، اہل علم کے نزدیک یہ بات بعید از قیاس ہے۔ اگر اس روایت کی سند صحیح ہے تو پھر غالبا یہ جن ہوں گے کیونکہ وہ بھی مکلفین میں شامل ہیں ۔‘‘
Flag Counter