Maktaba Wahhabi

394 - 432
میں کرکے شریعت کا حکم مانتے ہوئے اپنے بیٹوں کے بالمقابل ایک فریق بن کرعدالت پہنچ جائیں تو قلبی رنج عام حالات سے زیادہ ہوتاہے، کیونکہ بہرحال باپ یا چچا بیٹے یا بھتیجے کے برابر نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے گناہ بھی ہوئے اور وہ عادل ہی ہیں ، معصوم تو نہیں کیونکہ وہ بھی بالاخر ہماری طرح انسان ہی تھے اس لیے اس قسم کے اقوال کا انسانوں سے صادر ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ خلاصہ کلام ہماری مندرجہ بالا تصریحات سے یہ بات خود بخود ثابت ہوجاتی ہے کہ علامہ مازری رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ)رواۃ حدیث کو وہمی قرار دینے میں خود متذبذب ہیں ۔ علمی دنیا کی یہ عجیب روایت ہے کہ کسی مصنف کی تردد پر مبنی عبارت سے اپنے خود تراشیدہ اصولوں کا جواز ثابت کیا جارہا ہے۔ یہ معاملہ اس وقت مزید گھمبیر ہوجاتا ہے جب خود مصنف کتاب اپنے ذو معنی کلام کی کسی دوسرے مقام پر صراحت کرتے ہوئے کسی ایک جانب اپنا رجحان ظاہر کردے۔ اس صورت میں تو مصنف کی آخری اور حتمی رائے کو مانے بغیر کوئی چارہ کار ہی نہیں رہتا، کجا یہ کہ اس کے ذومعنی موقف کو ذکر کرکے اپنے اصول ہائے جدیدہ کی آبیاری کے لیے استعمال کیا جائے۔ علاوہ ازیں ہم یہ کہنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ یہ چند الفاظ اگر راویوں کا وہم قرار پائیں گے تو باقی طویل حدیث کو آپ کہاں لے جائیں گے؟ وہ بھی انہی راویوں کی روایت کردہ ہے، جنہیں آپ کی ’درایت‘ وہمی کہتی ہے اور اگر وہ باقی حدیث کے قبول کرنے میں ثقہ اور معتبر ہیں تو ان سے مروی ان الفاظ کا بھی اعتبار کیاجاسکتا ہے، جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کہے گئے ہیں ۔ نیز لڑائی جھگڑے میں اس قسم کے سخت الفاظ کا صادر ہونا درایت کے اعتبار سے محال نہیں ہے، خاص کر جبکہ باپ یا اس کے قائم مقام چچا اپنے بیٹے یابھتیجے سے متعلق ایسے نوکیلے لفظ بولے تو اس میں کسی درایتی معیار کی مخالفت نہیں پائی جاتی۔ المختصر علامہ مازری رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ) کی تردد پر مبنی عبارت سے اُصول اخذ کرنا یا اسے اپنی حمایت کے لئے پیش کرنا ہر گز معقول نہیں ہے۔ 2۔ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ قیامت کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے والد کو دیکھیں گے کہ ان پر ذلت اور سیاہی چھائی ہوئی ہے، تواللہ تعالیٰ سے عرض کریں گے کہ یا اللہ! آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ قیامت کے دن تمہیں رسوا نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے کہ میں نے جنت کو کافروں پرحرام کررکھا ہے۔ اعتراض مذکورہ روایت پر اِمام اسماعیلی رحمہ اللہ (م ۲۹۵ ھ) اعتراض کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہذا خبر فی صحتہ نظر من جہۃ أن إبراہیم علم أن اللّٰہ لایخلف المیعاد، فکیف یجعل ما صار لأبیہ خزیا مع علمہ بذلک ۵؎ ’’اس روایت کی صحت میں اشکال ہے کیونکہ ابراہیم علیہ السلام جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا تو ان کے والد کا جو انجام ہوا ہو اس کو وہ کیسے اپنی رسوائی قرار دے سکتے ہیں ۔‘‘ جواب ہماری معاشرتی سطح پر کسی موضوع سے متعلقہ مختلف اور متعارض اقوال کو پرکھنے کا عام ضابطہ یہ ہے کہ اقوال کے صحت وضعف کا مدار
Flag Counter