کہ ان کے بارے میں جہاں تک ممکن ہوسکے حسن ظن کا مظاہرہ کریں ۔ ’مشاجرات صحابہ‘ کے بارے میں اہل سنت والجماعت کا معتدل اور راجح موقف یہی ہے کہ ہم ان کے بارے میں اپنی زبانوں کو بند رکھیں ۔ تفصیل کے لیے مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ کی کتاب بنام ’مشاجرات صحابہ‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔ لیکن اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا آپس میں معاملہ ایک بالکل دوسری قسم سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ عام انسانوں کی طرح زندگی گذارتے تھے۔ آپس میں خریدوفروخت کرتے تھے اور ان سے بطور بشریت عام انسانوں کی طرح گناہ بھی صادر ہوئے تو جن روایات میں بعض صحابہ کرام کو شراب پینے یا زنا کے جرم کا ارتکاب کرنے پر حد جاری کرنے کا ذکر ہے توکیا ان تمام روایات کو شان صحابہ کے منافی قرار دے کر رد کردیا جائے گا؟ نیز صحابہ کے مابین جنگیں ہوئی ہیں کیا ان تمام روایات کو جو اس ضمن میں وارد ہیں رد کردینا چاہیے کہ ان شرف صحابہ پر زد پڑتی ہے؟ اس قسم کی بات کوئی ہوش مند نہیں کہہ سکتا۔ جب اتنے بڑے واقعات کا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ظہور ممکن ہے تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مثال اس کے سامنے کچھ حقیقت نہیں رکھتی جبکہ ان دونوں کا باہمی تعلق چچا اوربھتیجے کا بھی ہو۔ وہم راوی کا مسئلہ باقی رہا علامہ مازری رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ) کا اس حدیث کے راویوں کو وہمی کہنا تو وہ خود اس فیصلے میں متردد ہیں ، بلکہ ان الفاظ کو صحت ثبوت پر محمول کرتے ہوئے اس کی دوسری صورت کو راجح قرار دے رہے ہیں ۔ علامہ مارزی رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ)کی اصل عبارت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن الفاظ کو ان کے حوالے سے اوپر نقل کیا گیا ہے وہ ان الفاظ کی تاویل میں متردد ہیں اور مذکورہ رائے کو انہوں نے حتماً ذکرنہیں کیابلکہ اس کے علاوہ دوسری رائے کو وہ عمدہ اور اَجود کہہ رہے ہیں ، جسے انہوں نے ان الفاظ کی صحت ثبوت کے پیش نظر اختیار کیا ہے۔ علامہ مازری رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ)مذکورہ عبارت کے بعد خود ہی فرماتے ہیں : واذا کان ھذا اللفظ لابدمن إثباتہ ولم نضف الوھم إلی رواتہ فأجود ماحمل علیہ أنہ صدر من العباس علی جہۃ الإدلال علی ابن أخیہ لانہ بمنزلۃ ابنہ وقال مالا یعتقدہ وما یعلم براء ۃ ذمۃ ابن أخیہ منہ ولعلہ قصد بذلک ردعہ عما یعتقد أنہ مخطی فیہ ۴؎ ’’جبکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے متعلق کہے ہوئے یہ الفاظ حتمی طور پر صحیح ثابت ہیں اور راویوں کا وہم بھی نہیں تو بہترین جواب جس پر ان الفاظ کو محمول کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ الفاظ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے اپنے بھیتجے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ پرناز کے طور پر صادر ہوئے ہیں ، کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے بیٹوں کی طرح ہی تھے اور باپ اپنے بیٹے کوایسے الفاظ سے خطاب کرلیتا ہے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایسے لفظوں سے یاد کیا جن کے دل سے وہ معتقد نہیں تھے اور وہ جانتے تھے کہ علی رضی اللہ عنہ اس سے بری الذمہ ہیں ، چونکہ وہ اس جھگڑے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو غلطی پر سمجھتے تھے، شاید ان الفاظ کے استعمال سے ان کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی غلطی سے روکنا ہو۔‘‘ یہ مختصر الفاظ جنہیں ’درایت‘ کے خلاف سمجھ کر رد کرنے کی کوشش کی گئی ہے دراصل ایک لمبی حدیث میں وارد ہوئے ہیں جسے مفصل ذکر کرنا یہاں ممکن نہیں ہے۔ اس قسم کی امثلہ کتب حدیث میں اور بھی ہیں ، مثلا حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے بیٹے عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے خلاف کئی دفعہ مقدمہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں تشریف لے کر گئے ہیں اور یہ بات بالکل عادی بات ہے کہ جب باپ یا چچا جیسے رشتہ دار اپنے نفس کو قابو |