Maktaba Wahhabi

392 - 432
کے خلاف باتیں پائی جاتی ہیں یا ان میں آپ صلی اللہ عليہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں غیر مناسب باتیں ملتی ہیں وغیرہ جیسے تمام اعتراضات بعینہٖ قرآن پر بھی عائد ہوتے ہیں کیونکہ قرآن کی آیات میں بھی اس قسم کی اشیا موجود ہیں ۔ ۱؎ ذیل میں ہم ’اہل درایت‘ کی جانب سے پیش کردہ چند ایسی احادیث نقل کر رہے ہیں جنہیں ان کے زعم میں درایتی معیار پر پورا نہ اترنے کی بنا پرمحدثین کرام رحمہم اللہ نے ناقابل قبول قرار دیا ہے، حالانکہ ان کے راوی ثقہ اور ان کی اسانید متصل ہیں ۔ ان احادیث پر آئمہ محدثین رحمہم اللہ کی طرف پیش کردہ اعتراض کو ذکر کرنے کے بعد ہم اعتراض کی حقیقت واضح کریں گے تاکہ معلوم ہوسکے کہ کیا ان اقوال محدثین سے نقد روایت کے درایتی تصور کو ثابت کیا جانا ممکن بھی ہے یا نہیں ! 1۔ صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک جھگڑے کے سلسلے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : اقض بینی و بین ھذا الکاذب الاثم الغادر الخائن ۲؎ ’’میرے اور اس جھوٹے گناہگار بدعہد اور خائن کے درمیان فیصلہ کردیجئے۔‘‘ اعتراض اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ) ، علامہ مارزی رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ)سے نقل کرتے ہیں : ہذا الألفاظ الذی وقع لا یلیق ظاہرہ بالعباس وحاش لعلی أن یکون فیہ بعض ہذہ الأوصاف، فضلا عن کلہا،ولسنا نقطع بالعصمۃ إلا للنبی صلي اللّٰه عليه وسلم ولمن شہد لہ بہا، لکنا مأمورون بحسن الظن بالصحابۃ رضی اللّٰہ عنہم أجمعین ونفی کل رذیلۃ عنہ، وإذا انسدت طرق تأویلہا نسبنا الکذب إلی رواتہا ۳؎ ’’ اس روایت میں واقع یہ الفاظ بظاہر حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے صادر نہیں ہوسکتے اور ناممکن ہے کہ سیدعلی رضی اللہ عنہ کی ذات ان میں سے کوئی ایک وصف بھی ہو اور ہمارا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے علاوہ جن کے بارے میں آپ نے شہادت دی ہے، کسی کے بارے میں معصوم ہونے کا عقیدہ نہیں ہے ہمیں حکم ہے کہ صحابہ کے بارے میں حسن ظن رکھیں اور ہر بری بات کی ان سے نفی کریں ، جب تاویل کے تمام راستے بند ہوجائیں تو پھر ہم جھوٹ کی نسبت روایت کے راویوں کی طرف کریں گے۔‘‘ جواب علامہ مازری رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ) کے موقف کی توضیح علامہ مازری رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ) کے بارے میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ مذکورہ بالا حدیث کے بعض راوی وہم کا شکار ہوگئے ہیں اور دوسرا دعوی یہ ہے کہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے اس طرح کے سخت کلمات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف زبان سے صادر ہونا محال ہیں کیونکہ یہ ان کے مقام صحابیت کے منافی ہیں ۔ ذیل میں ہم علامہ مازری رحمہ اللہ (م ۵۳۶ ھ)کی جانب منسوب کیے جانے والے دونوں کا جائزہ پیش کر رہے ہیں : مقام صحابیت کا مسئلہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام نہایت اَرفع اور اَعلی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم عام مسلمانوں کو یہ بات قطعا زیب نہیں دیتی کہ ہم ان کی شان میں کوئی گستاخانہ کلمات ادا کریں ، کیونکہ اس روش سے ہمارے ایمان کی سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور ہمیں یہی حکم ہے
Flag Counter