Maktaba Wahhabi

385 - 432
ونحوہا فإن کان لہ نظیر من الصحاح ووالحسان قرب أمرہ وإن ارتبت فیہ ورأیتہ بأن الأصول فتأمل رجال إسنادہ واعتبر أحوالہم من کتابنا المسمی بالضعفاء والمتروکین فإنک تعرف وجہ القدح فیہ ۲۳؎ ’’جب تم کسی حدیث کو اسلام کے دواوین موطا، مسند احمد، صحیح بخاری و صحیح مسلم، سنن ابو داؤد اور اس کی مثل کتابوں سے خارج دیکھو اور اس کی نظیر صحیح وحسن حدیثوں میں موجود ہو ، تو اس کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان ہے اور اگر تمہیں شک ہو، نیز وہ حدیث ’اصول‘ کے خلاف ہو تو سند اور راویوں کے حالات پر غور کرو۔ ہماری کتاب جس کا نام کتاب الضعفاء والمتروکین ہے، اس سے راویوں کا حال معلوم ہوجائے گا اور حدیث میں خرابی کا پتہ چل جائے گا۔‘‘ بلکہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے: ’’ کلی قواعد میں یہ بات بھی داخل ہے کہ احادیث نبویہ، مسائل فقہیہ اور تفاسیر قرآنی انہیں کتب سے نقل کی جائیں جو متداول ہیں ، کیونکہ یہ کتب محفوظ ہیں اور ان کے علاوہ دیگر کتب میں زندیقوں اور ملحدوں نے موضوع حدیثیں شامل کردی ہیں ، جس کی بنا پر وہ قابل اعتماد نہیں ہیں ۔‘‘ ۲۴؎ عمومی طور پر یاد رہے کہ مذکورہ ضابطہ اکثری ہے، کلی نہیں ۔ اسی لیے امیر صنعانی رحمہ اللہ (م ۱۱۸۲ ھ)نے فن حدیث کی معروف کتاب توضیح الافکار میں ایک مستقل باب عدم انحصار الصحیح فی کتب الحدیث کے نام سے قائم کیا ہے، جس میں اس خیال کی تردید کی گئی ہے۔۲۵؎ المختصراِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ) نے ’تدریب الراوی‘ میں علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے بیان کردہ تینوں قرائن کو ذکر کرنے کے بعد ان اصولوں کی امثلہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے حوالے سے بیان فرمائی ہیں ، جن میں اکثر روایات حدیث کی امہات الکتب سے خارج ہونے کے ساتھ ساتھ عقلا ونقلا محال بھی ہیں اور اسنادی اعتبار سے یا موضوع ہیں یا ضعیف یا منکر۔۲۶؎ مثال کے طور پر انہوں نے اس روایت کو بیان کیا ہے، جو تقلید جامد کا شکار بعض حضرات ذکر کرتے ہیں : یکون فی امتی رجل یقال لہ محمد بن ادریس أضرعلی أمتی من إبلیس ویکون فی امتی رجل یقال لہ أبوحنیفۃ ھو سراج أمتی ۲۷؎ امام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے مطابق چونکہ یہ روایت حدیث کی معتبر اور مشہور کتابوں میں نہیں ہے اس لئے موضوع ہے۔ مزید برآں مخالفت عقل کی بھی انہوں نے مثالوں سے وضاحت کردی ہے، جیسا کہ اس ضمن میں انہوں نوح علیہ السلام کی کشتی کے خانہ کعبہ کا طواف کرنے اور پھر مقام ابراہیم پر جاکر دو رکعت نماز ادا کرنے کی روایت کا تذکرہ کیا ہے۔ یہ روایت حدیث کی امہات الکتب سے خارج ہونے کے ساتھ ساتھ عقلا بھی محال ہے اور اسنادی پہلو سے بھی بالکل من گھڑت ہے، اس لئے موضوع ہے۔ باقی رہی یہ بات کہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)سے اس قول کو پیش کرنے والے’ اصول کی مخالفت‘ کا مطلب اپنے من گھڑت درایتی اصول لیتے ہیں ، تویہ بات قطعا کسی محدث بشمول ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کا موقف نہیں ۔ ٭ آئمہ فن کی مذکورہ تمام تصریحات سے قطع نظر خود اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’الموضوعات‘ میں باقاعدہ کیف تُحکم علی الحدیث صحۃ وضعفا؟کا عنوان قائم کرکے وضاحت فرمائی ہے کہ کسی حدیث کی صحت وضعف کی بنیاد قرائن کے بجائے حتمی چیزوں یعنی راوی اور سند سے متعلقہ امور پر ہے۔۲۸؎ پھر خود اسی کتاب کے ایک اور مقام پر کیف یُعرف الحدیث المنکر؟ کاعنوان قائم کرکے یہ اصول بیان کیا ہے:
Flag Counter