کوئی تعلق نہیں ہے،کیونکہ انہوں نے تو یہ کہہ کر محدثین کرام رحمہم اللہ کی تائید کردی ہے کہ محدثین نے نقد حدیث میں صرف سند پرہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی توجہ متن حدیث کی طرف بھی پوری طرح مبذول رہی ہے اور انہوں نے متعدد ایسی روایات کو موضوع قرار دیا ہے جن میں سند کے ساتھ ساتھ متن کے خربیاں بھی پائی جاتی تھیں ۔ مزید ان کے قول کا تعلق اس بات سے ہے کہ کسی حدیث کے موضوع ہونے میں اگر محدثین کو راوی یا سند کے ذریعے واقفیت حاصل ہوتی ہے تو اسی طرح اس حدیث کے’ متنی خرابیوں ‘ سے متعلقہ علامات سے بھی محدثین کرام رحمہم اللہ حدیث کے وضع ہونے کو جان لیتے ہیں ۔ 7۔ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کی طرف سے درایتی نقد کے ثبوت کے لیے جو قول اوپر پیش کیا گیا ہے، وہ سراسر غلط فہمی کی ایک بین دلیل ہے، کیونکہ ایک قاری نے جب تعصب کی عین لگا رکھی ہو تو اس کو یہی کچھ دیکھائی دے گا جو تحقیق سے پہلے اس کے فکر خاص کا تقاضا تھا۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے قول کا مطلب آئمہ محدثین رحمہم اللہ نے کیا سمجھا اور خود موصوف کی نظر میں ان کے قول کا مطلب کیاہے؟ اسے واضح کردیا جائے۔ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے پہلے دو اقوال کا مطلب اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے نقل کردہ پہلے دو اقوال سے ان کی کیا مراد کے ضمن میں درج ذیل اقوال ملاحظہ فرمائیں : ٭ اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ) فرماتے ہیں کہ ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) نے اس قسم کے اصولوں کو ’معرفت وضع الحدیث‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔۱۹؎ ٭ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے صراحۃً ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) سے نقل کردہ اس قسم کے اقوال کو ’قرائن‘ کی بحث میں شمار کیا ہے۔ ۲۰؎ ٭ اِمام سیوطی رحمہ اللہ (م ۹۱۱ ھ)نے تدریب الراوی میں مزیدیہ وضاحت بھی فرمائی ہے کہ ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے اس قول’’ما أحسن قول القائل إذا رأیت الحدیث یباین المعقول أو یخالف المنقول أو یناقض الأصول فاعلم أنہ موضوع‘‘ میں ’خلاف اصول ‘ ان کی کیا مراد ہے؟ فرماتے ہیں : ومعنی مناقضتہ للأصول أن یکون خارجا عن دواوین الإسلام من المسانید والکتب المشہورۃ ۲۱؎ یعنی اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)کی ’خلاف اصول‘ سے مراد یہ ہے کہ وہ روایت حدیث کی امہات الکتب میں نہ پائی جائے۔ یہاں برسبیل تذکرہ یہ بات بھی واضح کردینی چاہیے کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (م ۱۱۷۶ ھ) نے اپنی شہرہ ٔ آفاق تصنیف حجۃ اللّٰہ البالغۃ میں محدثین کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے کتب حدیث کے چار طبقات ذکر کیے ہیں اور فرمایا ہے کہ پہلے دو طبقات محفوظ تر ہیں ، جن میں انہوں نے صحیحین، موطا اِمام مالک اور سنن اربعہ وغیرہ کو شمار کیا ہے ، جبکہ باقی دو طبقات میں پائی جانے والی حدیث کو خوب اہتمام سے انتہائی چھان پھٹک کے لینا چاہیے۔۲۲؎ گویا اِمام ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) یہاں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جو روایت کتب ستہ اور موطا اِمام مالک میں نہ دستیاب ہو وہ عام طور پر ضعیف ہوتی ہے ۔ اسی لیے ’خلاف اصول‘ کی وضاحت کرتے ہوئے امام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)خود بھی یہی لکھتے ہیں : متی رأیت حدیثا خارجا عن دواوین الإسلام کالمؤطأ ومسند أحمد والصحیحین وسنن أبی داؤود |