Maktaba Wahhabi

383 - 432
٭ إنما الاعمال بالنیۃ ٭ الحلال بین والحرام بین و بینہما مشتبھات.... الخ ٭ من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعینہ ۱۸؎ ان میں سے پہلی دونوں احادیث ایسی ہیں جنہیں روایت کرنے والا ایک ہی راوی ہے، حالانکہ یہ ایسے احکام پر مشتمل ہیں جن کا علم تمام لوگوں کے لئے ضروری ہے۔ صحت نیت اور حلال و حرام میں تمیز سے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔ حدیث نبوی کے خلاف اصول گھڑنے والے حضرات بھی ان احکام کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتے جن پر یہ احادیث نبویہ مشتمل ہیں ۔لہٰذا ثقہ راوی کی بیان کردہ حدیث امت مسلمہ کے ہاں قابل اعتبار ہے، خواہ وہ اس کی روایت میں منفرد ہی کیوں نہ ہو۔ 5۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) کا پیش کردہ یہ اصول کہ وہ بات جو تواتر سے نقل ہونی چاہئے اسے اگر ایک ہی شخص نقل کرے تو وہ بھی قبول نہیں ہوگی۔یہ اصول اپنے نقطہ آغاز میں ہی ناکام ہوجاتاہے کیونکہ پورے قرآن اور دین اسلام کی وحی صرف ایک شخصیت پر ہی نازل ہوئی ہے جو نبوت اور رسالت کے منصب پر فائز ہے۔ اس کے بعد اس نبی کی نبوت میں کئی مواقع ایسے بھی آئے جہاں عقائد و احکام کی تبلیغ کے لئے نبی کی طرف سے ایک ہی مبلغ کو منتخب کیا گیا ہے اور وہ اکیلا ہی تواتر سے متعلقہ اور غیر متعلقہ سب احکام لوگوں کو پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتا رہا ۔ 2۔ حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ) کے حوالے سے بالکل واضح رہنا چاہیے کہ انہوں نے صراحۃ مذکورہ کلام کو اپنے مشہور ’مقدمہ اصول حدیث ‘ میں معرفۃ الموضوع یعنی موضوع حدیث کی پہچان کیسے ہوگی؟ کا عنوان قائم کرکے ذکر فرمایا ہے، چنانچہ ان سے سند سے قطع نظر متن کی تحقیق کے دعوی کوکسی طرح ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ 3۔ اِمام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م ۷۰۲ ھ) کی طرف شمس الدین سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ) نے جس قول کو ذکر کیا ہے اس سے بالبداہت واضح ہے کہ انہوں نے یہ قول معرفۃ وضع الحدیث کے ضمن میں ارشاد فرمایا ہے۔ 4۔ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)کی جس تصنیف کو درایتی نقد کے اثبات کے لیے مدار بنایا جاتا ہے اس کتا ب کی ابتدا ہی میں واضح ہے کہ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)نے اس کتاب میں اس سوال کا جواب دیا ہے کہ سند کو دیکھے بغیر کیا صرف متن کے ذریعے موضوع روایات کی معرفت وپہچان ممکن ہے یا نہیں ؟ چنانچہ اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)نے پوری کتاب میں یہی جواب دیا ہے کہ موضوع حدیث کے متن کو دیکھ کر بعض علامات اور قواعد کے ذریعے موضوع حدیث کی معرفت ممکن ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب کس طرح ہوسکتا ہے کہ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)نے یہ کتاب موضوع حدیث کے اصول وضوابط پر لکھی ہے؟ صحیح بات یہی ہے کہ المنار المنیف کا موضوع ’معرفت موضوع حدیث‘ ہے۔ 5۔ اَبو الحسن کنانی رحمہ اللہ (م ۹۶۳ ھ) کے حوالے سے جس قول کو نام نہاد درایتی نقد کے اثبات میں پیش کیا گیا ہے وہ ان کی موضوعات پر مشتمل کتاب کی بحث حقیقۃ الموضوع واماراتہ وحکمہ سے ماخوذ ہے۔ چنانچہ جو بات متن کی تحقیق سے متعلقہ انہوں نے ارشاد فرمائی ہے اس کا تعلق بھی ’علامات ضعف حدیث‘ سے ہے۔ 6۔ محدثین کرام رحمہم اللہ کے حوالے سے درایتی نقد کے اثبات میں پیش کیے گئے ناموں میں سے ایک نام محدث عمر بن بدر الموصلی رحمہ اللہ (م۶۲۲ ھ) کا بھی ہے، لیکن ان کے حوالے سے جس قول اوپر درج کیاگیا ہے اس سے نام نہاد درایتی نقد کے استدلال کا
Flag Counter