Maktaba Wahhabi

382 - 432
3۔ کہ وہ اجماع کے خلاف ہو۔ 4۔ ایسی روایت کو صرف ایک راوی بیان کرے جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہے۔ 5۔ ایسی بات کو صرف ایک آدمی نقل کرے جس کو عادتا لوگ تواتر کے ساتھ نقل کرتے ہوں ۔۱۵؎ ان پانچوں امور پر ترتیب وار ذیل میں تبصرہ کیا جاتا ہے: 1۔ جہاں تک تقاضائے عقل کے خلاف کسی حدیث کو رد کردینے کا تعلق ہے تو اس قاعدے کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ بعض حضرات اپنی ذاتی عقل کو یا بعض مکاتب فکر اپنی مخصوص عقل و فکر کو عقل کل کا نام دے کر اس کے خلاف آنے والی حدیث کو رد کردینے کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کردیتے ہیں حالانکہ علماء حدیث ہی کی طرف سے اس کی عقل کے ساتھ مطابقت کی صراحت موجود ہوتی ہے، خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) کی مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ کوئی شخص یا فرقہ اپنی ذاتی یا جماعتی عقل کو عقل عام قرار دے کر اس کے خلاف آنے والی احادیث کو رد کرتا جائے اور جن علماء نے ایسی احادیث کی عقل کے ساتھ موافقت کو واضح کیا ہے ان سے سنی ہوئی بات کو ان سنی کردے۔ 2۔ جہاں تک کتاب اللہ اور سنت متواترہ کے خلاف حدیث کو رد کرنے کا اصول کا تعلق ہے تو اس سے کون انکار کرسکتا ہے۔ دراصل بات سمجھنے کی یہ ہے کہ کوئی صحیح حدیث جو طرق صحت سے ثابت ہوچکی ہو اور اسے فن حدیث کے ماہر علماء کرام و محدثین عظام رحمہم اللہ قبول کرتے اور اپنی مصنفات میں ذکر کرتے آرہے ہوں ، وہ کتاب اللہ یا سنت متواترہ کے خلاف ہو ہی نہیں سکتی، کتاب و سنت کے خلاف وہی حدیث ہوتی ہے جو صحیح ثابت نہ ہو۔ اِمام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (م ۳۱۱ ھ)نے اسی لئے فرمایا تھا: لا أعرف أنہ روی عن رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم حدیثان باسنادین صحیحین متضاد ان فمن کان عندہ فلیأت بہ حتی أؤلف بینہما ۱۶؎ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند کے ساتھ مروی دو احادیث بھی ایسی نہیں ہیں جو مفہوم کے اعتبار سے آپس میں مخالف ہوں ، جس کسی کے پاس ایسی دو احادیث ہیں وہ پیش کرے تاکہ ان میں مطابقت اور مفاہمت واضح کی جائے۔‘‘ 3۔ اجماع کے خلاف حدیث کو رد کرنے کے اصول کو بھی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض مکاتب فکر کسی مسئلہ پر اپنے اجتماعی اتفاق کو اجماع کا نام دے دیتے ہیں اور اس کے خلاف آنے والی حدیث کو مخالفت ِاجماع کے دعویٰ سے رد کرنے کے درپے ہوجاتے ہیں ، حالانکہ متعدد علماء امت اس مسئلہ میں مخالف رائے رکھتے ہیں جس پراجماع کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور کسی بھی مسئلہ میں ایک مجتہد کی مخالفت کی صورت میں بھی اجماع متحقق نہیں ہوسکتا۔ امام ابوالولید باجی رحمہ اللہ (م ۴۷۴ ھ)کہتے ہیں : لاینعقد الإجماع الا باتفاق العلماء جملۃ فإن شذ منہم واحد لم یکن إجماع ۱۷؎ ’’جب سب علماء کا اتفاق ہوجائے تو اجماع کہلاتا ہے۔ کسی ایک عالم کے اختلاف کی صورت میں اجماع نہیں ہوگا۔‘‘ 4۔ یہ دعویٰ کہ’’ وہ بات جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہو، اسے ایک ہی راوی بیان کرے تو اسے بھی رد کردیا جائے گا‘‘ اسلاف امت کے ہاں مسلم قاعدہ نہیں ہے۔ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ) اس ضمن میں فرماتے ہیں : ’’اہل علم کے ہاں ذخیرہ حدیث میں تین احادیث ایسی ہیں جن پر پورے اسلام کا دارومدار ہے:
Flag Counter