Maktaba Wahhabi

386 - 432
الحدیث المنکر یقشعر لہ جلد الطالب للعلم وینفر منہ قلبہ فی الغالب ۲۹؎ خلاصہ بحث یہ ہے کہ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)کے نزدیک کسی حدیث کے موضوع قرار پانے کا واحد مدار اسی بات پر نہیں ہے کہ وہ روایت خلاف عقل ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کسی روایت کے موضوع ہونے میں اس بات کی بھی شرط عائد کردی ہے کہ اس کا وجود امہات الکتب میں نہ پایا جاتا ہو۔ اس سے یہ بات ازخود سمجھ آرہی ہے کہ اگر کوئی روایت امہات الکتب میں موجود ہو، جن کی اسناد پایہ کے اعتبارسے انتہا درجہ کی قابل اعتماد ہیں اور اُمہات الکتب کی یہ روایت عقل کے بھی خلاف معلوم ہوتی ہو تو اس کوموضوع قرار نہیں دیا جائے گا، کیونکہ موضوع ہونے میں خلاف عقل ہونے کے ساتھ ساتھ امہات الکتب میں اس کا نہ پایا جانا بھی ضروری ہے۔ جس کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ کسی روایت کو صرف متن کی بنیاد پر خلاف عقل ہونے کی وجہ سے قطعی طور پر موضوع قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)کے تیسرے قول کا مطلب دوسرے باب میں تفصیلا گذر چکا ہے کہ کسی حدیث کی صحت کا اصلی دارومدار خبر مقبول کی پہلی تین اساسی شرائط کے وجود پرہے، جبکہ ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کے مذکورہ قول اس کے برخلاف معلوم ہوتا ہے۔ ’اہل درایت‘ بالخصوص علامہ تقی امینی رحمہ اللہ اس طرح اقوال کو پیش کرکے ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ نقدسند کی طرح نقد ِمتن ایک مستقل معیار تحقیق ہے لیکن ان کی یہ خواہش کم از کم امام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)سے پوری نہیں ہوسکتی، کیونکہ جس قول کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے اس قول کے ذکر کرنے کے معا بعد اِمام موصوف رحمہ اللہ نے اپنے قول کی وضاحت خود کردی ہے۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ اس کی عموما دو شکلیں ہوتی ہیں : 1۔ بعض بد دین اور جھوٹے راوی کسی موضوع حدیث کو ثقہ راویوں کی حدیث میں داخل کردیتے ہیں ، پھر یہ داخل شدہ حدیث ثقہ راوی کی حدیث سمجھ کر روایت کی جاتی۔ مثلا ابن ابی العوجاء جو حماد بن سلمہ کا سوتیلا بیٹا تھا، وہ ثقہ راوی کی حدیث میں یہ حرکت کیا کرتا تھا۔ حدیث: إن سفینۃ نوح طافت بالبیت سبعا وصلت خلف المقام رکعتین اسی قبیل سے ہے۔ 2۔ کوئی راوی جھوٹے اور ضعیف لوگوں سے حدیث سنتا، جس کو یہ لوگ اپنے شیخ سے روایت کرتے تھے لیکن روایت حدیث میں حرص کی وجہ سے یہ راوی درمیان سے جھوٹے اور ضعیف لوگوں کے نام نکال کر براہ راست شیخ سے نقل کرنے لگتا تھا، جس سے حدیث مقلوب ہوجاتی تھی۔ ۳۰؎ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)نے دونوں مذکورہ شکلوں کی معرفت کو حد درجہ مشکل بتایا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں : فإن قوی نظرک ورسخت فی ہذا العلم فہمت مثل ہذا وإن ضعفت فاسأل عنہ وإن کان قد قلّ من یفہم ہذا بل قد عدم ۳۱؎ ’’اگر تیری نظر قوی ہے اور اس علم میں رسوخ حاصل ہے تو اس جیسی صورت کو سمجھ لے گا اور اگر کمزور ہے تو اس کے بارے میں پوچھ لے، اگرچہ اس کے سمجھنے والے بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہیں ۔‘‘ نوٹ: محدثین کرام رحمہم اللہ کی طرف سے پیش کیے گئے عقلی درایتی اصول یا بعض احادیث پر درایتی نقد کے سلسلہ میں ان کی طرف سے عملی امثلہ کے تفصیلی جائزہ سے جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ’اَہل درایت‘ کو دو پہلوؤں سے محدثین کرام رحمہم اللہ کی بات سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے:
Flag Counter