وقد یکون الإسناد کلہ ثقات ویکون الحدیث موضوعا أو مقلوبا ۱۰؎ ’’ کبھی کل سندیں ثقہ ہوتی ہیں ، پھر بھی حدیث موضوع یا مقلوب ہوتی ہے۔‘‘ بعض محدثین رحمہم اللہ کی طرف منسوب درایتی عقلی اصولوں کا جائزہ ضعف حدیث میں علت(بیماری) اور علامت کا فرق واضح رہے کہ حدیث میں متن کی ’درایت‘سے متعلق جو اَقوال اوپر ذکر کیے گئے ہیں ان کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ محدثین کرام رحمہم اللہ خلاف قرآن، خلاف عقل وغیرہ امور کو بھی تحقیق و درایت حدیث میں ایک حیثیت دیتے ہیں ، لیکن وہ حیثیت’ علت‘ (بیماری) کی نہیں بلکہ ’علامت‘ کی ہے۔ جیسا کہ اس کی مثال بلڈ پریشر یا بخار کی سی ہے کہ ان میں ڈاکٹر نبض یا اسٹیتھو سکوپ کے ذریعے مرض کی تشخیص کی کوشش کرتا ہے لیکن ممکن ہے کہ جسم کی حرارت یا خون کا پریشر کسی اور وجہ سے ہو۔ گویا بخار میں جسم کا گرم ہونا اور بلڈ پریشر میں مریض کے چہرہ کا سرخ ہوجانا یا سرچکرانا وغیرہ یہ چیزیں بیماری کے معلوم کرنے کی علامات بنتی ہیں ، نہ کہ خود بیماری ہیں ۔ ان علامات کے ذریعے ایک ڈاکٹر مریض کی تشخیص کرکے اصل مرض تک پہنچ جاتا ہے۔ عین اسی طرح محدثین کرام رحمہم اللہ کے نزدیک روایت کا قرآن، عقل، خبر متواترہ کے ظاہراً خلاف ہونا یا کوئی اور ذریعہ یہ اس بات کی علامات ہیں کہ حدیث کی تحقیق دوبارہ کی جائے، نہ کہ یہ وہ اساسی کمزوریاں ہیں جن کی بنا پر حدیث کو موضوع یا ضعیف کہہ دیا جائے۔ موضوع حدیث وہ ہوتی ہے جس میں پائے جانے والے کسی واضع راوی کے سبب اس روایت کو من گھڑت اور خود ساختہ قرار دیا جائے۔ اس قسم کی موضوع احادیث کا جب محدثین کرام رحمہم اللہ اور محققین نے جائزہ لیا تو انہوں نے اس قسم کی احادیث کو عام فہم طور پر بیان کرنے کے لیے چند ایسے اکثری اور اغلبی قواعد بیان کردیے، جو موضوع احادیث میں عام جائزہ کے بعد انہیں بدیہی نظر آئے۔ اس قسم کے قواعد کو انہوں نے’ معرفت وضع الحدیث کے طرق‘ کے عنوان سے ذکر کردیا۔ ٭ جیسا کہ علامہ جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ (م ۱۳۳۲ ھ)نے مستقل عنوان قائم کرکے تصریح فرمائی ہے کہ معرفت ضعیف یا معرفت موضوع کی تحت آئمہ نے جوکلیات عام طور پر ذکر کیے ہیں اس قسم کے کلیات قرائن میں سے ہوتے ہیں ۔ ۱۱؎ ٭ اِمام نووی رحمہ اللہ (م ۶۷۶ ھ)بھی اس قسم کے اصولوں کو ’تقریب‘ میں ’معرفت وضع الحدیث‘ کی بحث قرار دیتے ہیں ۔ ۱۲؎ اس کے ساتھ ساتھ اگر اس بات پر ہی سطحی سا غور کرلیا جاتا توسادی عقل رکھنے والا بھی یہ مغالطہ نہیں کھا سکتا تھا کہ علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ)، ملا علی قاری رحمہ اللہ (م ۱۰۱۴ ھ) ، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) ، علامہ سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ) وغیرہ آئمہ، جنہوں نے موضوع روایات پر مستقل کتابیں لکھی ہیں انہوں نے اپنے اس قسم کے تمام ضوابط ان کتابوں میں درج کیے ہیں ۔ چنانچہ یہ کتب ان آئمہ نے ضعیف یاصحیح روایت کے اصولوں پر نہیں لکھیں ، بلکہ ان اصولوں پر مشتمل کتب تو ’اصول حدیث‘ کی کتب کہلاتی ہیں ۔ یہ کتب انہوں نے محض ان اُصولوں کے اطلاقات کے بعد نتائج کی صورت میں احادیث میں سے جو ضعیف یا صحیح احادیث میں نکھار ہوا ان کو جمع کرکے مستقل تصنیفات میں اکٹھا کردیا گیا۔ جیسا کہ اسی قسم کا کام دور حاضر کے نامور محدث علامہ ناصرالدین |