قرینۃ فی المروی المخالفۃ لمقتضی العقل بحیث لا یقبل التأویل ویلتحق بہ ما یدفعہ الحس والمشاہدۃ والعادۃ ۵؎ ’’ مروی(متن) میں وضعی ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ وہ مقتضائے عقل کیخلاف اس طرح ہو کہ کوئی تاویل نہ قبول کرسکے، اسی میں وہ بھی شامل ہے جو حس، مشاہدہ اور عادت کے خلاف ہو۔‘‘ عمر بن بدر الموصلی رحمہ اللہ کا موقف محدثین کرام رحمہم اللہ کا تحقیق متن کے سلسلہ میں کیا منہج ہے؟ اس حوالے سے محدث عمر بن بدر الموصلی رحمہ اللہ (م ۶۲۲ ھ)فرماتے ہیں : لم یقف العلماء عند نقد الحدیث من حیث سندہ بل تعدوا إلی النظر فی متنہ فقضوا علی کثیر من الأحادیث بالوضع وإن کان سندا سالما إذا وجدوا فی متونہا عللا تقضی بعدم قبولہا ۶؎ ’’علماء نے نقد حدیث کے معاملے میں صرف سند پر اکتفا نہیں کی بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے چنانچہ انہوں نے بہت سی ایسی حدیثوں کے موضوع ہونے کا فیصلہ کیا ہے جن کی سندیں اگرچہ درست تھیں لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی تھیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع تھیں ۔‘‘ ملا علی قاری رحمہ اللہ اور اِمام سخاوی رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ملا علی قاری رحمہ اللہ (م ۱۰۱۴ ھ)نے الأسرار المرفوعۃ فی الأخبار الموضوعہ المعروف بہ موضوعات کبیر میں اور اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ)نے فتح المغیث میں ’موضوع‘ کی بحث کے ضمن ان علامات کا تفصیل سے تذکرہ فرمایا ہے جو عام طور پر موضوع روایات کے متن میں پائی جاتی ہیں ۔ ’اہل درایت‘ نے اِمام ابن قیم (م ۷۵۱ ھ)،ملا علی قاری (م ۱۰۱۴ ھ)، اِمام سخاوی(م۹۰۲ھ) اور اِمام ابن جوزی رحمہم اللہ (م ۵۹۷ ھ) کو ہی نقدروایت کے درایتی معیار میں اصل بنیاد کے طور پر بیش فرمایا ہے۔بلکہ علامہ تقی امینی رحمہ اللہ نے اپنی معروف تصنیف ’حدیث کا درایتی معیار‘ میں انہی اشخاص کے حوالے سے ۲۶ کے قریب درایتی اصول ذکر کیے ہیں اور دعوی کیا ہے کہ یہی وہ ضابطے ہیں جن کی روشنی میں ایک حدیث کو قبول کرنے کا معیار قائم ہوتا ہے۔۷؎ اِمام ابن جوزی رحمہ اللہ کا موقف 1۔ اِمام ابن جوزی(م ۵۹۷ ھ) نے نقد روایت میں متن سے متعلق ضوابط کو نہایت خوبصورت طریقے مختصر اور جامع الفاظ میں یوں سمیٹ دیا ہے کہ وہ فرماتے ہیں: ما أحسن قول القائل: إذا رأیت الحدیث یباین المعقول أویخالف المنقول أو یناقض الأصول فاعلم أنہ موضوع ۸؎ ’’ کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے کہ جب کوئی روایت عقل و نقل یا اصول کے خلاف ہو تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔‘‘ 2۔ اس سلسلہ میں ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کا ایک اور مشہور قول یہ ہے: الحدیث المنکر یقشعر لہ جلد الطالب للعلم وینفر منہ قلبہ فی الغالب ۹؎ ’’ حدیث منکر وہ ہوتی ہے کہ جس کا ظاہر ی متن ہی سے طالب علم کو وحشت ہوتی ہے اور اس کے بال وکھال اسے قبول کرنے سے انکار کردیتے ہیں لیکن یہ بات اکثری ہوتی ہے ، کلی نہیں ۔‘‘ 3۔ محدث ابن جوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) کا ایک مشہور قول یہ بھی ہے کہ فرماتے ہیں : |