Maktaba Wahhabi

378 - 432
بعلمہ من بین الخلق العظیم۔ والخامس أن ینفرد بروایۃ ما جرت العادۃ بأن ینقلہ أہل التواتر فلا یقبل لأنہ لا یجوز أن ینفرد فی مثل ہذا بالروایۃ ۱؎ ’’جب کوئی ثقہ اور مامون راوی ایسی روایت بیان کرے جس کی سند بھی متصل ہے تو اس کو ان امور کے پیش نظر رد کردیا جائے گا: ایک یہ کہ وہ تقاضائے عقل کے خلاف ہو۔ اس سے اس کا بطلان معلوم ہوگا کیونکہ شرع کا ورود عقل کے مقتضیات کے مطابق ہوتا ہے نہ کہ عقل کے خلاف۔ دوسرا یہ کہ وہ کتاب اللہ کی نص یا سنت متواترہ کے خلاف ہو۔ اس سے معلوم ہوتا کہ اس کی کوئی اصل نہیں یا یہ منسوخ ہے۔ تیسرا یہ کہ وہ اجماع کے خلاف ہو۔ اس سے یہ استدلال کیا جائے گا کہ وہ منسوخ ہے یا ا سکی کوئی اصل نہیں کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ وہ صحیح اور غیرمنسوخ ہو اور امت کا اس کے خلاف اجماع ہو جائے۔ چوتھا یہ کہ ایسے واقعہ کو صرف ایک راوی بیان کرے جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی کوئی اصل نہیں کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایسی بات کی کوئی اصل ہو اور تمام لوگوں میں سے صرف ایک راوی اس کو نقل کرے۔ پانچویں یہ کہ ایسی بات کو صرف ایک آدمی نقل کرے جس کو عادتاً لوگ تواتر کے ساتھ نقل کرتے ہیں ۔ یہ بھی قبول نہیں ہوگی کیونکہ یہ ممکن نہیں کہ ایسے واقعہ کو نقل کرنے والا صرف ایک آدمی ہو۔‘‘ اِمام ابن صلاح رحمہ اللہ کا موقف محدثین کرام رحمہم اللہ کے ہاں ابن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ) کو امیر المومنین فی اصول الحدیث کامقام حاصل ہے۔ تحقیق متن کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ)نے لکھا ہے: وقد یفہمون الوضع من قرینۃ حال الراوی أو المروی فقد وضعت أحادیث طویلۃ یشہد بوضعہا رکاکۃ ألفاظہا ومعانیہا ۲؎ ’’ کبھی محدثین کرام رحمہم اللہ حدیث کے جعلی ہونے کا فیصلہ راوی یا مروی یعنی متن کو دیکھ کر کرتے ہیں ، چنانچہ بہت سی طویل حدیثوں کے الفاظ ومعانی کی رکاکت(سطحیت) خود وضعی ہونے کی شہادت دیتی ہے۔‘‘ اِمام ابن دقیق العید رحمہ اللہ کا موقف اِمام سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ)نے نقل فرمایا ہے کہ اِمام ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م ۷۰۲ ھ)نے فرمایا: وکثیرا ما یحکمون بالوضع باعتبار أمور ترجع الی المروی وألفاظ الحدیث ۳؎ ’’ اکثروبیشتر محدثین جن علامات کی بنیاد پر حدیث کے موضوع ہونے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اس کا تعلق مروی اور الفاظ ِحدیث سے ہے ۔ ‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا موقف اِمام ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)کے حوالے ذکر کیا جاتا ہے کہ انہوں نے نقدر وایت کے درایتی معیار کی وضاحت کے لیے المنار المنیف فی الحدیث الصیحیح والضعیف کے نام سے مستقل کتاب تصنیف فرمائی ہے، جس میں انہوں نے ان درایتی اصولوں کو تذکرہ وضاحۃ کیا ہے کہ اگر وہ کسی بھی حدیث میں پائے جائیں تو حدیث ضعیف ہوگی۔ مثلا ابن قیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ)حدیث ’’من عشق وکتم وعفی وصبر غفر اللّٰہ لہ وأدخلہ الجنۃ‘‘ پریوں تبصرہ فرماتے ہیں : لو کان إسناد ہذا الحدیث کالشمس کان غلطا وہما ۴؎ ’’اگر اس حدیث کی سند آفتاب کی طرح ہوتی تو بھی یہ غلط اور وہم ہوگی۔‘‘ ابو الحسن علی بن محمد کنانی رحمہ اللہ کا موقف اسی طرح ابو الحسن علی بن محمد کنانی رحمہ اللہ (م ۹۶۳ ھ)نے ’موضوعات‘ سے متعلقہ اپنی معروف کتاب میں فرمایا ہے:
Flag Counter