Maktaba Wahhabi

377 - 432
تمہید اس پر فتن دور میں حدیث نبوی کے خلا ف محاذ آرائی بڑی شدومد کے ساتھ جاری ہے اور استعمار کے پروردہ بعض جدت پسند حضرات حدیثِ نبوی کے استخفاف وانکار کی غرض سے اپنے مخصوص افکار کی آب یاری کے لیے محدثین کرام رحمہم اللہ کے عظیم الشان اور جلیل القدر کام کو ناقص کہہ کر اصول وضع کرنا شروع کردیتے ہیں ، تاکہ نامکمل خدمت حدیث کو بدرجہ ٔ احسن مکمل کرنے کے سہرا انہی کے سر پر سجایا جائے۔ لیکن در پردہ یہ حضرات حدیث نبوی کو خلاف قرآن یا خلاف عقل قرار دے کر اس کو رد کرنے کی سعی مذموم کرتے ہیں ۔ آج کل اس مخصوص فکروذہن کے ساتھ حدیث نبوی کا انکار کرنا ایک عام مشغلہ بن کر رہ گیا ہے۔ اگر بعض مخلص افراد ان کے اس غیر مناسب اقدام پر انگشت نمائی کرتے ہیں تو وہ اپنی اس ’بدعت‘ کو سند جواز فراہم کرنے کے لیے کبھی تو خود آئمہ سلف کے ساتھ ملاتے ہیں اور کبھی اِستدراکات صحابہ رضی اللہ عنہم کا سہارا لیتے ہیں اور کبھی محدثین کرام رحمہم اللہ کے اصول درایت کاحوالہ دیتے ہیں ۔ حالانکہ نہ تو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درایت کے اس عقلی منہج کے ساتھ کوئی علاقہ ہے اور نہ ہی محدثین عظام رحمہم اللہ کو اس غلط تصور کے ساتھ کوئی واسطہ، کیونکہ جب عربی زبان میں لفظ درایت عقل کے معنی میں مستعمل ہی نہیں تو درایت حدیث کے نام پر حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کوعقل یا عقل عام کے خلاف کہہ کر رد کردینے کا اصول بے جا ہے۔ اس فصل میں ہم محدثین کرام رحمہم اللہ کی طرف منسوب ان چند اقوال کی وضاحت پیش کریں گے کہ جنہیں ’اہل درایت‘ نے اپنے موقف کے اثبات کے لیے بطور حوالہ ذکر کیا ہے۔ اس ضمن میں ہم وضاحت کریں گے کہ ان اقوال کی نوعیت کیا ہے؟ اور محدثین کرام رحمہم اللہ کس قسم کی متنی تحقیق کے قائل ہیں ؟ نقد روایت کے درایتی تصور کے اثبات کے لیے عام طور پر درج ذیل محدثین کرام رحمہم اللہ کو سرفہرست ذکر کیا جاتا ہے: 1۔ خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ) 2۔ عثمان بن عبدالرحمن بن الصلاح رحمہ اللہ (م ۶۴۳ ھ) 3۔ ابن دقیق العید رحمہ اللہ (م ۷۰۲ ھ) 4۔ علامہ ابن القیم رحمہ اللہ (م ۷۵۱ ھ) 5۔ ابو الحسن علی بن محمد کنانی رحمہ اللہ (م ۹۶۳ ھ) 6۔ عمر بن بدر حنفی رحمہ اللہ (م ۶۲۲ ھ) 7۔ ملا علی قاری رحمہ اللہ (م ۱۰۱۴ ھ) 8۔ شمس الدین محمد سخاوی رحمہ اللہ (م ۹۰۲ ھ) 9۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ (م ۵۹۷ ھ) اِمام خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا موقف محدثین کرام رحمہم اللہ میں خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ)کامقام آئمہ کی صف میں ہوتا ہے۔ ’درایت‘ کے اصولوں کی وضاحت کرتے ہوئے خطیب بغدادی رحمہ اللہ (م ۴۶۳ ھ)اپنی کتاب الفقیہ والمتفقہ میں لکھتے ہیں : وإذا روی الثقۃالمأمون خبرا متصل الإسناد رد بأمور: أحدہا أن یخالف موجبات العقول فیعلم بطلانہ لأن الشرع إنما یرد بمجوزات العقول وأما بخلاف العقول فلا۔ والثانی أن یخالف نص الکتاب أو السنۃ المتواترۃ فیعلم أنہ لا أصل لہ أو منسوخ۔ والثالث أن یخالف الإجماع فیستدل علی أنہ منسوخ أو لا أصل لہ لأنہ لایجوز أن یکون صحیحا غیر منسوخ وتجمع الأمۃ علی خلافہ۔۔۔ والرابع أن ینفرد الواحد بروایۃ ما یجف علی کافۃ الخلق علمہ فیدل ذالک علی أنہ لا أصل لہ لأنہ لا یجوز أن یکون لہ أصل وینفرد ہو
Flag Counter